Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaafir : 73
ثُمَّ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَۙ
ثُمَّ : پھر قِيْلَ : کہا جائے گا لَهُمْ : ان کو اَيْنَ : کہاں مَا كُنْتُمْ : جن کو تم تھے تُشْرِكُوْنَ : شریک کرتے
پھر ان سے پوچھا جائے گا، کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا شریک ٹھہراتے تھے۔
مشرکین کی بدحواسی اس کے بعد ان سے سوال ہوگا کہ اب تائو، خدا کی پکڑ سے بچانے کے لئے اس کے مقابل میں دوسرے جو شریک تم نے ٹھہرا رکھے تھے، وہ کہاں گئے ! اگر وہ ہیں تو ان کو بلائو، تمہیں اس عذاب سے چھڑائیں ! ’ من دون اللہ ‘ یہاں اللہ کے مدمقابل کے مفہوم میں ہے اور اس مفہوم میں یہ آتا ہے۔ اس کی وضاحت اس کے محل میں ہوچکی ہے۔ وہ جواب دیں گے کہ وہ تو سب ہم سے کھوئے گئے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم کسی چیز کو پوجتے ہی نہیں تھے۔ یعنی پہلے دہلہ میں وہ اقرار کرلیں گے کہ ان کے کچھ معبود تھے جن کی وہ پرستش کرتے رہے تھے لیکن یہاں ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کے لئے موجود نہیں ہے لیکن پھر جب وہ یہ محسوس کریں گے کہ ان کی عبادت کی پاداش ہی میں ان کو اس ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑا ہے تو ان کا انکار کردیں گے کہ شاید یہ انکار ان کے لئے کچھ نافع ہوجائے۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ قیامت کے دن مشرکین پر ایسی بدحواسی طاری ہوگی کہ وہ ایک ہی سانس میں اپنے معبودوں کا اقرار بھی کریں گے اور انکار بھی۔ سورة انعام کی آیات 23۔ 24 کے تحت اس پر بحث گزر چکی ہے۔ ’ کذلک یضل اللہ الکفرین ‘ یہ اشارہ ان کے اسی اقرار و انکار کی طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ان کو اس طرح حواس باختہ کر دے گا کہ ان کو کچھ ہوش نہیں رہے گا کہ ابھی وہ کیا کہہ گزرے ہیں اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔ اس کی وضاحت پیچھے بھی ہوچکی ہے اور آگے یہ مضمون حٰمٓ السجدۃ کی آیت 48 میں بھی آ رہا ہے وہاں انشاء اللہ اس کی مزید وضاحت ہوجائے گی۔
Top