Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 73
ثُمَّ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَۙ
ثُمَّ : پھر قِيْلَ : کہا جائے گا لَهُمْ : ان کو اَيْنَ : کہاں مَا كُنْتُمْ : جن کو تم تھے تُشْرِكُوْنَ : شریک کرتے
پھر ان سے پوچھا جائے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم شریک کرتے تھے
ثُمَّ قِیْلَ لَہُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ ۔ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَـکُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا ط کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْـکٰفِرِیْنَ ۔ (المؤمن : 73، 74) (پھر ان سے پوچھا جائے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم شریک کرتے تھے۔ اللہ کے سوا، وہ جواب دیں گے وہ سب ہم سے کھوئے گئے بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو بھی نہ پکارتے تھے، اس طرح اللہ کافروں کے حواس گم کردے گا۔ ) مشرکین کا اعتراف جب یہ لوگ اپنے کفر و شرک کی پاداش میں جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے تو پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کچھ قوتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا تھا اور ان کے بارے میں تمہارا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر ہم پر کوئی افتاد پڑی تو یہ شرکاء ہماری ضرور مدد کریں گے۔ اب جبکہ تم اپنے جرائم میں پکڑے گئے ہو اور جہنم کی بدترین سزا میں گرفتار ہو تو اب وہ تمہاری مدد کے لیے کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں۔ تو وہ جواب میں کہیں گے کہ وہ تو سب ہم سے کھوئے گئے، یعنی ہم نے جن پر بھروسہ کیا تھا آج ان کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ہماری حماقت تھی کہ ہم نے ان کے اعتماد پر شرک کا راستہ اختیار کیا اور انھیں اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے رہے۔ لیکن آج معلوم ہوا کہ وہ ہماری مدد کرنے کے قابل نہ تھے اس لیے وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ اس لیے آج ہم پر یہ بات کھلی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سہارا وہم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ تو آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر ہم نے ان کو دنیا میں اسی لیے پکارا کہ وہ آخرت میں ہمارے کام آئیں گے لیکن اب معلوم ہوا کہ جنھیں ہم سہارا سمجھتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے۔ اس طرح سے ہم نے دیواروں سے سر ٹکرایا، اور ہَوائوں کو مٹھی میں تھامنے کی کوشش کی۔ اور جو قوتیں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بالکل ہیچ اور لاشے تھیں انھیں سہارا سمجھنے کی حماقت میں مبتلا رہے۔ بعض اہل علم نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ وہ جواب کے آغاز میں دوسروں کی پرستش اور ان سے استمداد کا اعتراف کریں گے۔ لیکن پھر معاً ان کو خیال آئے گا کہ یہی تو وہ جرم ہے جس کی پاداش میں ہمیں پکڑا گیا ہے اور ہم اسی کا اعتراف کرکے اپنے جرم کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس لیے وہ فوراً اس سے مکر جائیں گے۔ اور کہیں گے کہ ہم نے کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔ اور ہم کسی کو نہیں پکارتے رہے۔ خیال ان کا یہ ہوگا کہ شاید اس سخن سازی سے ہمارے عذاب میں کوئی تخفیف ہوجائے یا ہمیں اس سے کوئی نفع پہنچے۔ انجام کے اعتبار سے دونوں معنوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ بلاشبہ عذاب کی شدت سے مشرکین پر ایک بدحواسی طاری ہوگی۔ اس لیے کبھی وہ کچھ کہیں گے اور کبھی کچھ۔ مقصد صرف یہ ہوگا کہ شاید اس طرح ہمارے چھوٹ جانے کا کوئی امکان پیدا ہو۔ اس لیے آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اس طرح کافروں کو حواس باختہ کردے گا۔
Top