Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے
لَا يَسْخَرْ
: نہ مذاق اڑائے
قَوْمٌ
: ایک گروہ
مِّنْ قَوْمٍ
: (دوسرے) گروہ کا
عَسٰٓى
: کیا عجب
اَنْ يَّكُوْنُوْا
: کہ وہ ہوں
خَيْرًا مِّنْهُمْ
: بہتر ان سے
وَلَا نِسَآءٌ
: اور نہ عورتیں
مِّنْ نِّسَآءٍ
: عورتوں سے ، کا
عَسٰٓى
: کیا عجب
اَنْ يَّكُنَّ
: کہ وہ ہوں
خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ
: بہتر ان سے
وَلَا تَلْمِزُوْٓا
: اور نہ عیب لگاؤ
اَنْفُسَكُمْ
: باہم (ایکدوسرے)
وَلَا تَنَابَزُوْا
: اور باہم نہ چڑاؤ
بِالْاَلْقَابِ ۭ
: بُرے القاب سے
بِئْسَ الِاسْمُ
: بُرا نام
الْفُسُوْقُ
: گناہ
بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ
: ایمان کے بعد
وَمَنْ
: اور جو ، جس
لَّمْ يَتُبْ
: توبہ نہ کی (باز نہ آیا)
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
: وہ ظالم (جمع)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ کوئی عورتیں دوسری عورتوں سے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں کے ساتھ پکارو، ایمان کے بعد فاسق ہونا برا نام ہے اور جس نے توبہ نہ کی سو وہی اصل ظالم ہیں۔
(1) یایھا الذین امنوا…: گزشتہ آیات میں مسلمانوں کے آپ س میں لڑنے کی صورت میں ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا، اس سے پہلے بلاتحقیق خبر پر عمل سے منع فرمایا تھا، کیونکہ اس سے لڑائی پیدا ہوسکتی ہے اور لاعلمی میں نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہاں سے مزید ان چیزوں سے منع فرمایا جو اسلامی اخوت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور باہمی عداوت اور لڑائی کا باعث بنتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی تین چیزیں ذکر فرمائیں :(1) کسی کا مذاق اڑانا۔ (2) کسی پر عیب لگانا۔ (3) کسی کو برے لقب سے پکارنا۔ (2) لایسخر قوم من قوم :”سخر یسخر سخر وسخراً و سخراً و سخرا و سخرۃ و مسخراً بہ و منہ“ (َ) استہزائ، مذاق اڑانا، ٹھٹھا کرنا، و ہنسی جس سے دوسرے کی تحقیر اور دل آزاری ہو۔ وہ ہنسی جس سے دوسرے کا دل خوش ہو وہ مزاح کہلاتی ہے، وہ جائز ہے بلکہ مسنون ہے۔ کشاف میں ہے :”قوم کا لفظ مردوں کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ مرد عورتوں کے ”قوام“ ہوتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔ ولا اذری و سوف اخال ادری اقوم ال حصن ام نساء ”اور میں نہیں جانتا اور میرا خیال ہے کہ میں جل ہی جان لوں گا کہ آل حصن قوم (یعنی مرد) ہیں یا عورتیں۔“ یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے ، کیونکہ قوم کو ٹھٹھا کرنے سے منع کرنے کے بعد عورتوں کو اس سے منع فرمایا ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن میں مذکور قوم فرعون اور قوم ثمود وغیرہ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں تو اصل یہ ہے کہ وہاں مردوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، کیونکہ عورتیں ان کے تابع ہیں۔ (3) پہلی چیز جس سے منع فرمایا وہ کس کا مذاق اڑانا یا تمسخ رہے، کیونکہ اس سے دلوں میں شدید بغض پیدا ہوتا ہے۔ جس کا مذاق اڑایا جائے وہ اسے اپنی تذلیل سمجھ کر ہر وقت اتنقام کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور ظاہر ہے انتقام میں بات کاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ کوئی شخص کسی کا ٹھٹھا اسی وقت اڑاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے اور یہ سمجھنا تکبر ہے، جس پر شدید وعید ائٓی ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ولا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر، قال رجل ان الرجل یحب ان یکون نوبہ حسنا ونعلہ حسنۃ، قال ان اللہ جمیل یحب الجمال، الکبر بطر الحق و غمط الناس) (مسلم، الایمان ، باب تحریم الکبر و بیانہ : 91)”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔“ ایک آدمی نے کہا : ”آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے) ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا :”بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ یہاں قوم کو قوم کم مذاق اڑانے سے منع فرمایا، کیونکہ عموماً کسی مجلس ہی میں کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے ، ورنہ اکیلے کا مذاق اڑانا بھی منع ہے۔ (4) عسی ان یکونوا خیراً منھم : مذاق اڑانے سے منع کرنے کی وجہ بیان فرمائی کہ جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو، ہوسکتا ہے وہ اللہ کے ہاں تم سے بہتر ہو، کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا دار وم دار ظاہری شکل و صورت پر نہیں، بلکہ دل کے تقویٰ پر ہے اور اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ پھر دار و مدار موجودہ حالت پر نہیں بلکہ خاتمے پر ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اس کا خاتمہ تم سے اچھا ہو جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو۔ (5) ولا نسآء من نسآء عسی ان یکن خیراً منھن : قرآن مجید میں عموماً احکام کے لئے مردوں ہی کو مخطاب کیا گیا ہے، عورتوں کا ذکر تابع ہونے کی وجہ سے لاگ نہیں کیا گیا۔ یہاں عورتوں کو الگ بھی خطاب فرمایا، اس سے ظاہر ہے کہ عورتوں کو اس گناہ سے روکنے کی خاص ضرورت ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس آیت میں مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے ٹھٹھا کرنے سے منع فرمایا تو کیا مرد عورتوں سے یا عورتیں مردوں سے ٹھٹھا کرسکتی ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کے ملے جلے معاشرے کی گنجئاش ہی نہیں، جس میں وہ ایک دوسرے کا بےتکلف مذاق اڑا سکیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی مجلسیں الگ الگ ہوتی ہیں، اس لئے دونوں کو الگ الگ منع فرمایا۔ (6) مذاق خواہ زبان کے ساتھ اڑایا جائے یا کسی کے نقصک ی طرف اشارہ کر کے یہ نقل اتار کر، ہر طرح کا مذاق حرام ہے۔ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے کہاک :(حسبک من صفیۃ کذا وکذا ، قال غیر مسدد تعنی فصیرۃ فقال لقد قلت کلمۃ لو مرجث بماء البحر لمرجنہ قالت و حکیت لہ انساناً فقال ما احب انی حکمت انسانًا و ان لی کذا وکذا) (ابوداؤد، الادب ، باب فی الغیۃ :3858 وقال الابانی صحیح)”آپ کو صفیہ سے یہی کچھ کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔“ مسدد کے علاوہ دوسرے راوی نے وضاحت کی کہ مرادان کے قد کا چھوٹا ہونا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :”یقینا تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر سمندر کے پانی میں ملا دی جائے تو سارے پانی کو خراب کر دے۔”عائشہ ؓ نے بیان کیا :”اور میں نے آپ کے سامنے کسی انسان کی نقل اتاری (تو اس کا کیا حکم ہے ؟)“ آپ ﷺ نے فرمایا :”میں پسند نہیں کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل ات اورں، خواہ مجھے یہ یہ کچھ مل جائے۔“ (7) ولا ت لمزوا انفسکم :”لمز یلمز لمزا“ (ض ، ن) کسی پر عیب لگانا ، خفی کلام کے ساتھ آنکھ کا اشار کرنا، دھکا دینا، مارنا۔ مزید دیکھیے سورة ہمزہ کی آیت (1):(ویل لکل ھمزۃ لمزۃ) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کسی پر عیب نہ لگاؤ، یہ فرمایا کہ اپنے آپ پر عیب نہ لاگوء جیسا کہ فرمایا :(لاتقتلوا انفسکم) (النسائ : 29)”اپنے آپ کو قتتل نہ کرو۔“ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ”کالجسد الواحد“ (ایک جسم کی مانند) ہیں، عیب لگانے والے کو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ جب وہ کسی مسلم بھائی پر عیب لگا رہا ہے تو درحقیقت وہ اپنے آپ ہی پر عیب لگا رہا ہے، سو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ دوسروں پر عیب لگائے گا تو عیب سے خالی تو یہ بھی نہیں اور دوسرں کی آنکھیں بھی ہیں اور زبان بھی، پھر اس کے عیوب بھی ظاہر کئے جائیں گے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :”اپنے آپ پر عیب مت لگائگو۔“ اس آیت میں لوگوں کے سامنے کسی کے عیب ظاہر کرنے اور ان کا طعنہ دینے سے منع فرمایا، اگلی آیت میں کسی کی عدم موجودگی میں اس کے عیب ذکر کرنے یعنی غیبت سے بھی منع کیا۔ صرف ایک بات کی اجازت ہے اور وہ ہے نصیحت کہ اپنے بھائی کو الگ لے جا کر اسے اس کی غلطی بات کر درست کرنے کی نصیحت کرے، جس طرح آئینہ غلطی بتاتا ہے مگر شور نہیں ڈالتا۔ لوگوں کے سامنے کسی مسلم کے منہ پر یا اس کی عدم موجودگی میں اس کے عیب کا اظہار کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈلانے کا حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(المسلم اخوالمسلم، لایظلمہ ولایسلمہ، ومن کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ، ومن فرج عن مسلم کر بۃ فرج اللہ عنہ کر بۃ من کر بات یوم القیامۃ و من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ (بخاری، المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا بسلمہ :2332 عن ابن عمر ؓ)”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرنا ہے اور نہ اسے بےیارو مددگار چھوڑتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کے کام میں ہو اللہ اس کے کام میں ہوتا ہے اور جو کسی مسلم سے کوئی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف اس سے دور فرمائے گا اور جو کسی مسلم پر پردہ ڈلاے، ؓ اس پر پردہ ڈالے گا۔“ (8) ولا تنا بروا بالالقاب :”النبر“ (نون اور باء کے فتحہ کے ساتھ) برے لقب کو کہتے ہیں، مثلاً لنگڑا، لولا، اندھا، کالا، ٹھگنا، کبڑا، گدھا، لومڑ یا کوئی بھی نام جس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو، مثلاً کسی سے کوئی گناہ ہوا ہو، تائب ہونے کے بعد عار دلانے کے لئے اسے چور یا زانی یا شربای کہہ کر پکارنا۔ لقب ایسے نام کو کہتے ہیں جس سے کسی خوبی یا خامی کا اظہار ہوتا ہو، خواہ آدمی نے خود اپنے لئے رکھا لیا ہو یا کسی دوسرے نے رکھ دیا ہو۔ یہاں ”لاتنابروا“ کے قرینے سے لقب سے مراد برا نام ہے، کیونکہ اچھے القاب سے پکارنا تو قابل تعریف ہے، جیسے ابوبکر صدیق، عمر فاورق، حمزہ اسد اللہ، خالد سیف اللہ ، ابوعبیدہ امین الامت، حذیفہ صاحب سر رسول اللہ ، عبداللہ بن مسعود صاحب المطہرۃ والو سادۃ والنعلین ؓ۔ اس کے علاوہ عرب کا طریقہ اکرام کرتے ہوئے کنیت کے ساتھ پکارنے کا تھا، جس یا سلام نے برقرار رکھا۔ مومن کا حق یہ ہے کہ اسے اس نام سے پکارا جائے جو اسے اپنے لئے سب سے زیادہ پسند ہو، کیونکہ یہ محبت پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کا باعث ہے۔”ولا تنا بروا بالالقاب“ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کا برا نام نہ رکھے جس سے وہ ناراض ہو، یا اس کی توین و تذلیل ہوتی ہو اور نہ ایسے نام کیساتھ اسے آواز دے کر پکارے۔ جاہلیت میں یہ بات عام تھی کہ ایک شخص نے دوسرے کا برا لقب رکھا تو اس نے اس کا رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ ابو جبیرہ بن ضحاک ؓ بیان کرتے ہیں :”آیت :(ولاتنا بزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان) ہم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں آئے تو ہم میں سے ہر آدمی کے دو دو، تین تین نام تھے نبی ﷺ کسی کو کوئی نام لے کر بلاتے تو لوگ کہتے :”یا رسول اللہ ! اسے اس نام سے نہ بلائیں، کیونکہ وہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔“ تو اس پر آیت (ولا تنا بزوا بالالقاب) اتری۔“ (ابوداؤد، الادب، باب فی الاقاب :3962) (9) اس حکم سے وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو کسی کی پہچان بن چکے ہوں، نہ اس نام والا اسے برا سمجھتا ہو اور نہ اس سے مقصود تحقیر یا تذلیل ہو، بلکہ مقصود صرف تعارف ہو، جیسے سلیمان الاعمش (چندھیائی ہوئی آنکھوں والا): واصل الاحدب (کبڑا) ، حمید الطویل (لمبا) ، ابوہریرہ اور ذوالیدین وغیرہ۔ (10) بئس الاسم الفسوق بعد الایمان : اس سے معلوم ہوا کہ اوپر جن چیزوں سے روکا گیا ہے وہ سب فسوق ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص ان کاموں کا ارتکاب کرے وہ مومن ہونے کے باوجود فاسق ہے اور یہ بہت بری بات ہے کہ آدمی کا نام فاسق رکھا جائے، اسکے بعد کہ اس کا نام ممنون ہے۔”بعد الایمان“ (ایمان کے بعد) اس لئے فرمایا کہ اگر تم ایمان کا شرف حاصل نہ کرچکے ہوتے تو فاسق یا بدمعشا کہلانے میں عار کی کئیو خاص بات نہ تھی، لیکن اب ایمان لے آنے کے بعد یہ نام تم پر آنا بہت بری بات ہے۔ تمہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اب تم وہ ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم و کرہ الیکم الکفروا الفسوق والعصیان) (الحجرات : 8) ”اور لیکن اللہ نے تمہاریلئے ایمان کو م حبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنادیا۔“ تو تمہیں ہر ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے تم پر فسق کا نام آئے (11) ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون :”الف لام“ کمال کا ہے، یعنی اگرچہ جو بھی گناہ کرے ظالم ہے مگر توبہ سے اس ظلم کی تلافی ہوجاتی ہے۔ اصل ظالم وہی ہیں جو گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور توبہ کئے بغیر فوت ہوجاتے ہیں۔
Top