Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا۔۔ : اوپر کی آیت میں محاربین (جو لوٹ مار کرتے اور فساد پھیلاتے ہیں) کی سزا بیان ہوئی تھی، اب اس آیت میں چوری کی حد (قانونی سزا) بیان فرمائی کہ مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ حدیث میں اس کی تفصیل ہے، عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر دینار کے ایک چوتھائی یا زیادہ میں۔“ [ مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ و نصابھا : 2؍1684 ] چور کو حاکم کے پاس لے جانے سے پہلے معاف کیا جاسکتا ہے، بعد میں نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے ایک چادر چرائی تھی، آپ ﷺ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ چادر کے مالک صفوان ؓ نے کہا : ”اے اللہ کے رسول ! میرا ارادہ یہ نہیں تھا (کہ اس کا ہاتھ کٹوا دوں) میری چادر اس پر صدقہ ہے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تو نے اسے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں (یہ صدقہ) نہ کیا ؟“ [ ابن ماجہ، الحدود، باب من سرق من الحرز : 2595 قال الالبانی صحیح ] بعض لوگوں نے چوری کی حد باطل کرنے کے لیے بہت سے حیلے ایجاد کیے ہیں، ان میں سے دو حیلے ایسے ہیں جن کی موجودگی میں کسی چور کا ہاتھ کاٹا ہی نہیں جاسکتا۔ ایک یہ کہ عدالت میں جانے کے بعد مال مسروقہ کا مالک چور کو چرائی ہوئی چیز ہبہ کردے، یا اس کے ہاتھ بیچ دے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا حالانکہ یہ صحیح حدیث کے صریح خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ چور پر شہادتوں کے ساتھ چوری کا جرم ثابت ہوجائے تو چور دعویٰ کر دے کہ مال مسروقہ میرا مال ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، خواہ وہ اپنی ملکیت کی کوئی دلیل پیش نہ کرے۔ یہ حیلہ لکھنے والے نے اس پر لکھا ہے کہ مخالف کی طرف سے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح تو کوئی چور بھی جھوٹا دعویٰ کرنے سے عاجز نہیں، ہر چور ہی مالک ہونے کا دعویٰ کر دے گا اور چوری کی حد سرے سے ختم ہوجائے گی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ یہ بات صرف علماء کو معلوم ہے، چوروں کو معلوم نہیں، اس لیے حد ختم ہونے کی کوئی فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حیلوں کی وجہ سے بھی مسلم حکومتوں میں حدود اللہ ختم ہوئیں جس کے نتیجے میں ظلم و ستم حد سے بڑھے، پھر اغیار مسلمانوں پر مسلط ہوگئے، اس کا علاج دوبارہ حدود اللہ کا صحیح نفاذ ہے۔ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ : یہ اس کے گناہ کی سزا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت بھی کہ وہ تمام عمر لوگوں کے لیے چوری سے رکنے کا باعث اور یاددہانی بنا رہے گا کہ چور کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔ اگر اسے قتل بھی کردیا جاتا تو یہ عبرت حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔
Top