Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
پھر جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرے تو یقینا اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ بیشک اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ۔۔ : یہاں ظلم سے مراد چوری ہے، یعنی جس نے چوری کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلی اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف فرما دے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ توبہ کرلینے سے چوری کی حد اس سے ساقط ہوجائے گی۔ نبی ﷺ نے ایک چور کے متعلق فرمایا : ”اسے لے جاؤ، اس کا ہاتھ کاٹ دو ، پھر اسے داغ دو ، پھر میرے پاس لاؤ۔“ الغرض ! اس کا ہاتھ کاٹا گیا، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے فرمایا : ”اللہ سے توبہ کرو۔“ اس نے کہا : ”میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تیری توبہ قبول کرے۔“ [ مستدرک حاکم : 4؍381، ح : 8150 و صححہ و قال صاحب نیل الأوطار سندہ صحیح ] یہ تو بالکل صحیح ہے کہ حدود صرف گناہ سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ اس گناہ کا کفارہ بھی ہیں، ان سے وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے مگر ساتھ توبہ بھی ضروری ہے، تاکہ آئندہ وہ یہ حرکت نہ کرے۔ ہاں کوئی شخص چوری کرے اور اس کا کسی کو پتا نہ چلے، یا چوری کے مال کا مالک اسے عدالت میں نہ لے جائے تو اس کے لیے توبہ و استغفار ہی کافی ہے۔
Top