Al-Quran-al-Kareem - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔
(1) یوم یکشف عن ساق …:”یوم“ یا تو پچھلی آیت ”فلیاثوا بشرکآئھم“ کے متعلق ہے، یعنی دنیا میں تو ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے جھوٹ موٹ شریک گنوا دیں جو ان کی رہائی کے ذمہ دار بننے کا دعویٰ کریں، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر سچے ہیں تو اس دن اپنے شریک سامنے لائیں جس دن پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لئے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ یا یہ ”ان للمتقین عند ربھم جنت النعیم“ کے متعلق ہے، یعنی متقین کو نعمت والی جنتیں اس دن ملیں گی جب پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائے گا۔ (2) یوم یکشف عن ساق“ کا ایک معنی تو وہ ہے جو ان لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے اور ایک وہ ہے جو ان لفظوں کے سادہ ترجمہ سے ہٹ کر کیا گیا ہے اور جو لغت عرب کا ایک محاورہ ہے۔ وہ معنی جو لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے کہ ”جس دن پنڈلی کھولی جائے گی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی ظاہر فرمائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لئے بلایا جائے گا۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے اور صحیح سند کیساتھ آپ سے یہی مروی ہے ، چناچہ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(یکشف ربنا عن ساقہ فسجد لہ کل مومن و مومنۃ و یبقی من کان یسجد فی الدنیا ریاء و سمعۃ فیذھب لیسجد فیعود ظھرۃ طبقاً واحدا) (بخاری، التفسیر، باب :(یوم یکشف عن ساق): 3919)”ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مراد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لئے سجدہ کرتا تھا وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہوجائے گی (یعنی دوہری نہیں ہو سکے ی۔)“ اس حدیث میں صاف ا لفاظ موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا، بلکہ صحیح بخاری میں ایک اور مقام پر ہے کہ ہر قوم جس کسی کی پرستش کرتی تھی اس کے پیچھے چلی جائے گی، صلیب والے صلیب کے پیچھے، بتوں والے بتوں کے پیچھے اور دوسرے معبودوں والے اپنے اپنے معبدوں کے پیچھے چلے جائیں گے، صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا بد وہ اللہ تعالیٰ کا انتظار کر رہے ہوں گے، اللہ ان سے پوچھے گا :(ھل بینکم وبینہ ایۃ تعرفونہ ؟ فیقولون الساق فیکشف عن ساقہ فیسجدلہ) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ :(وجوہ یومئذ ناظرۃ…): 8339)”کیا تمہارے اور تمہارے رب کے درمیا نکوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو ؟“ وہ کہیں گے :”پنڈلی ہے۔“ تو اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اسے سجدہ کرے گا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ پنڈلی کھولنے سے مراد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کے درمیان اور اہل ایمان کے درمیان طے شدہ نشاین ہوگی اور اس نشانی کو دیکھ کر اہل ایمان رب تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گرجائیں گے۔ یہ حدیث صحیح بخایر کے علاوہ حدیث کی دوسری بہت سی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اتنی اعلیٰ درجے کی صحیح سند کے ساتھ خود رسول اللہ ﷺ سے آیت کی تفسیر آنے کے بعد کسی اور تفسیر کی نہ ضرورت رہتی ہے اور نہ گنجائش ، مگر چونکہ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی ایک اور تفسیر کی ہے اس لئے وہ بھی ذکر کی جاتی ہے۔ ان مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ ”کشف ساق“ لغت عرب کا ایک محاورہ ہے، جو شدت سے کنایہ ، یعنی ”یوم یکشف عن ساق“ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت سخت ہوگا، کیونکہ جب کوئی سختی یا مشکل پیش آتی ہے تو آدمی پنڈلی سے کپڑا اٹھا کر کمر کس لیتا ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس ؓ سے مقنول ہے اور بعض تابعین جیسے مجاہد، عکرمہ اور ابراہیم نخفی ؒ وغیرہ سے بھی آئی ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ درست ہے اور لغت عرب میں یہ محاورہ استعمال بھی ہوتا ہے، مگر پہلی تفسیر (یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا) میں قرآن کے صریح الفاظ کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور یہ تفسیر اس ذات گرامی نے کی ہے جس پر قرآن نازل ہوا تھا، اس لئے یہی مقدم ہے۔ البتہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، اس دن اللہ تعالیٰ کی پنڈلی بھی ظاہر ہوگی اور اس دن کی شدت میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ خود ابن عباس ؓ عنہمانے اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہونے کا کبھی انکار نہیں فرمایا اور نہ دیگر صحابہ میں سے کسی نے ان الفاظ کا انکار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق اس سلسلے میں قرآن یا حدیث میں آئے ہیں۔ قرآن مجید میں چونکہ یہ صراحت نہیں کہ اللہ کی پنڈلی ظاہر ہوگی بلکہ صرف پنڈلی کا لفظ ہے، اس لئے ابن عباس ؓ عنہمانے اس کا مفہوم یہ لیا کہ کشف ساق سے اس دن کی شدت مراد ہے اور یہ مراد لینا لغت عرب کے بالکل مطابق ہے، مگر ابوسعید خدری ؓ عنہمانے رسول اللہ ﷺ سے صراحت نقل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہوگی۔ اس لئے مقدم وہی مفہوم ہوگا جو خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ، اگرچہ قیامت کے دن کی شدت بھی اپنی جگہ حقیقت ہے۔ افسوس تو ان لوگوں پر ہے جنہوں نے صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر نہیں ہوگی، نہ اس کی پنڈلی ہے۔ ان لوگوں نے اس سے بڑھ کر اس قسم کے ان تمام الفاظ کا انکار کردیا جو قرآن میں آئے ہیں، مثلاً ہاتھ ، چہرہ، آنکھ ، پاؤں وغیرہ اور کہا کہ اگر ہم یہ مانیں تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آتا ہے اور اس کا ہمارے جیسا ہونا لازم آتا ہے، جب کہ اس نے خود فرمایا :(لیس کمثلہ شیء) (الشوری : 11)”اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“ یعنی یہ بھی مانو کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ بھی مانو کہ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی۔ یہ خیال کر کے اس کے سمیع وبصیر ہونے کا انکار نہ کردینا کہ ہم بھی سمیع اور بصیر ہیں، اگر اسے سمیع وبصیر مانا تو اس کا ہمارے مشابہ ہونا لازم آئے گا۔ نہیں، اس کا سمیع وبصیر ہونا تمہارے سمیع وبصیر ہونے کے مشابہ نہیں ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی، اس کا چہرہ، اس کا قدم اور جو کچھ اس نے خود اپنے متعلق بتایا سب برحق ہے، مگر اس کی پنڈلی مخلوق کی پنڈلی کے مشابہ نہیں، نہ کوئی اور صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ ہے، وہ اسی طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صفات الٰہی والی آیات و احادیث کے متعلق سلف صالحین کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے ظاہر الفاظ پر ایمان لانا چاہیے اور ان کی کفیت اللہ کیس پرد کر دینی چاہیے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کیا ہے درحقیقت وہ خود تشبیہ میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اللہ کی پنڈلی، اس کے چہرے اور دوسری صفات کو اپنے اعضا جیسا سمجھا اور یہ سمجھ کر ان سے انکار کردیا۔ اگر وہ ان صفات کو اپنی صفات کی مثال خیال نہ کرتے تو کبھی انکار نہ کرتے۔
Top