Fi-Zilal-al-Quran - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لئے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے ،
یوم یکشف ................................ وھم سلمون (34) (86 : 24۔ 34) ” جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لئے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے ، ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ، ذلت ان پر چھارہی ہوگی۔ یہ جب صحیح وسالم تھے ، اس وقت انہیں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا (اور یہ انکار کرتے تھے) “۔ یوں یہ لوگ قیامت کے اس منظر کے سامنے ہیں۔ گویا قیامت برپا ہے اور ان کو بلایا جارہا ہے ، کہ لاﺅ شریکوں کو جن کا تم دعویٰ کرتے تھے۔ اور اللہ کے علم میں تو یہ دن حقیقتاً حاضر ہے۔ کیونکہ اللہ کے علم میں ماضی ، حال اور مستقبل نہیں ہے۔ یوں اللہ کے علم کو پیش کرنا ، نہایت گہرا اثر ڈالتا ہے اور قرآن مجید کا مخصوص انداز بیان ہے۔ یکشف عن ساق ” جب پنڈلی کھل جائے گی “۔ یہ عربی محاورے میں سختی اور کرب کے لئے آتا ہے۔ یعنی مشکل وقت میں انسان آستین چڑھاتا ہے اور پائنچے اٹھاتا ہے اور پنڈلی کھل جاتی ہے۔ بالعموم مشکل وقت میں انسان ایسا کرتا ہے ، اور اس وقت ان کو دعوت دی جائے گی کہ اللہ کے سامنے سجدہ کرو ، یہ نہ کرسکیں گی ، کیونکہ وقت چلا گیا ہوگا اور یا اس لئے کہ اس وقت جس طرح دوسری جگہ کہا گیا : مھطعین ............ روسھم ” سر اٹھائے بھاگے چلے جارہے ہوں گے “ حالت یہ ہوگی کہ ان کے اعصاب اور اجسام خوف کے مارے اکڑے ہوئے ہوں اور وہ غیر ارادی طور پر سجدہ نہ کرسکیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی خوفزدہ پریشان ہوں گے۔ مزید ہیئت کذائی یہ ہوگی۔
Top