Mualim-ul-Irfan - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس دن کھولی جائیگی پنڈلی اور یہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے پس یہ سجدہ کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔
گذشتہ سے پیوستہ (ربطہ) : پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفر و شرک کرنے والوں کا رد فرمایا ۔ کافروں کے اس خیال کی تردید فرمائی جس کے مطابق وہ کہتے تھے کہ چونکہ ہم دنیا میں برتر ہیں لہٰذا آگے بھی ہم ہی برتر ہونگے فرمایا کہ فرمانبردار اور مجرم کیسے ہو سکتے ہیں ۔ یہ بات عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔ پھر مطالبہ کیا کہ تمہارے پا س کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے تو پیش کرو۔ دنیا کا کوئی عقلمند اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ مجرم اور فرمانبردار ایک جیسے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لیے مقرر کردہ نعمتوں اور ان کی کامیابی کا حال بیان کیا ۔ عبادت کا اثر اسکی صحت پر منحصر ہے : ان آیتوں میں شرک اور کفر کرنے والوں کا حال بیان ہوا ہے۔ وہ اپنے شرک کو اس طرح صحیح قرا ر دیتے ہیں کہ جن کی عبادت ہم کرتے ہیں ، اس سے مقصود عبادت نہیں بلکہ یہ تو صرف واسطہ ہیں ، اور ان کی عبادت کرنا گویا خدا کی عباد ت کرنا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بالکل غلط خیال ہے ۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو مبرا اور منزہ سمجھ کر خالص اسی کی عباد ت کرتا ہے تو یہی عبادت صحیح اصول پر قائم ہوتی ہے۔ اور آگے چل کر اسی کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ مگر ان غلط عقیدہ رکھنے والوں کی بیہودہ باتوں کا الٹا اثر ظاہر ہوگا۔ یہ لوگ اپنے غلط عقیدے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی بیہودہ باتیں کرتے ہیں۔ اگر یہ صحیح عبادت کرنے والے ہوتے تو اس کا اثر صحیح طریقے پر ظاہر ہوتا۔ عبادت کے صحیح یا غلط اثر کا ظہور کب ہوگا۔ تو اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کا ذکر کیا اور ان لوگوں کا رد فرمایا جن کی عبادت غلط ہے ۔ ارشاد ہوا جس دن کھولی جائیگی پنڈلی اور یہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے۔ پس یہ سجدہ کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ ان کی آنکھیں پست ہوں گی۔ ان کے اوپر ذلت چڑھی ہوئی ہوگی۔ اور تحقیق ان کو دنیا میں سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا اور وہ بالکل صحیح سلامت تھے۔ وہاں پر یہ صحیح سجدہ نہیں کرتے تھے۔ تو اصل مقصد یہی ہے کہ مشرکین اور کفار کی عبادت غلط ہے۔ اس کا اثر صحیح نہیں نکلے گا مگر تعبیر ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے۔ ساق کی حقیقی معنے : یہ قرآن پاک کی مشکل آیتوں میں سے ہے۔ اس کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ساق پنڈلی کو کہتے ہیں۔ اس لیے مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں مختلف طریقے استعمال کیے ہیں تاکہ آیت کا مفہوم قریب الفہم ہو۔ پنڈلی سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلہ میں تفسیر کے دو طریقے تو عام ہیں۔ بعض مفسرین اس سے حقیقی معنی مراد لیتے ہیں۔ اور بعض مفسرین مجازی معنی مرادلیتے ہیں۔ حقیقی معنی یہ ہے کہ ساق پنڈلی ہی مراد لی جاتی ہے جیسا کہ انسان کے جسم میں پنڈلی ، ٹانگیں اور دیگر اعضاء ہوتے ہیں ، پنڈلی پر جسم کھڑا ہے ایسے ہی پنڈلی کا اطلاق خدا کی ذات پر کریں تو یہ حقیقی معنی ہوگا ، مگر اس میں دشواری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لیے جسمیت ثابت ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اعضاء سے بالکل پاک ہے۔ یہ تنزیہہ کے خلاف ہے۔ ساق کے مجازی معنے : بعض مفسرین جن میں ابن جریر طبری (رح) اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ شامل ہیں ان سے منقول ہے کہ یہاں حقیقی معنی مراد نہیں ، بلکہ یہ تمثیل ہے تمثیل اس طرح کہ کشف ساق کنا یہ ہوتا ہے سختی سے یعنی شدت اور سختی مراد ہے۔ عربی محاورے میں کشف ساق شدت بےچینی اور سختی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کہتے ہیں لڑائی نے اپنی پنڈلی کھول دی ہے۔ یعنی لڑائی سخت ہوگئی ہے۔ شدت اختیار کرگئی ہے۔ فرمایا جس دن قیامت کی سختی بر پا ہوگی۔ اس وقت کافروں کی عبادت صحیح نہیں ہوگی۔ اس کا اثر صحیح ثابت نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا ہے اور شرک کا اثر برا اور الٹا نکلے گا۔ بات یہ سمجھانا مقصود ہے ۔ ظاہر ہے کہ قیامت کی سختی سے بڑی سختی اور کوئی نہیں ہوگی۔ اولاقیامت کا واقع ہونا اور حیرت انگیز حالات کا ظاہر ہونا پھر تمام انسانوں کا جمع ہونا اس کے بعد محاسبے کی منزل وغیرہ بہت ہی تلخ ہوں گے۔ جیسا کہ فرمایا قیامت بڑی آفت ہے اور بڑی تلخ ہے ۔ تو کشف ساق سے مراد یہ ہے کہ جس دن سختی واقع ہوگی ۔ اس دن ان کی عبادت ٹھکانے نہیں لگے گی۔ غلط ہوگی تو یہ گویا ساق کے مجازی ہیں۔ خدا کی ذات پر پنڈلی کا اطلاق : بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اگر ساق کا حقیقی معنی پنڈلی بھی لیا جائے تو درست ہے مگر پنڈلی کا اطلاق خدا کی ذات پر کیسے کیا جائے۔ قرآن پاک میں اور بھی کئی متشابہات ہیں مثلاََ وجہہ ، ہاتھ حدیث میں اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کا ذکر بھی آتا ہے۔ دل اللہ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔ جس طرح چاہتا ہے پلٹ دیتا ہے۔ یہ سب چیزیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ حدیث میں کمرکا ذکر بھی آتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رحم ، رشتے ، اور قرابت کو پیدا کیا تو اس نے رحمان کی کمر کو پکڑ لیا۔ اسی طرح قدم کا ذکر بھی حدیث میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دوزخ میں اپنا قدم ڈالیں گے۔ جس سے وہ پڑ ہوجائے گی اور کہے گی بس اب پر ہوگئی ہوں۔ لہٰذا سلف صالحین بزرگ اور آئمہ کرام کہتے ہیں کہ ان سب الفاط پر ہمارا ایمان ہے۔ اور اسی طرح پنڈلی پر بھی۔ حدیث میں چادر اور تہ بند کا ذکر بھی آتا ہے۔ یعنی تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند ہے۔ جو ان کو اپنے اوپر اوڑھانا چاہے گا میں اسے ذلیل کروں گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) ، مالک (رح) ، شانعی (رح) اور سفیان ثوری (رح) جیسے ائمہ کرام کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں ، ان پر ایمان رکھنا چاہیے یہ صحیح ہیں مگر ان کی کیفت کو خدا کے سپر کرنا چاہئے کہ ان اعضاء کی کیفیت کیسی ہے۔ مثلاََ یہ پنڈلی ایسی نہیں ہے جیسی انسانوں یا حیوانوں کی ہوتی ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا فرمان ہے خدا کی مانند کوئی چیز نہیں۔ پنڈلی ہے ہاتھ ہے مگر جیسا اس کی شان کے لائق ہے آنکھ اور کان ہیں کیونکہ وہ مگر ایسی آنکھ اور ایسے کان نہیں جیسے مخلوق کے ہوتے ہیں۔ بلکہ ایسے جیسے اس کی شان کے ساتھ لائق ہیں۔ کا بھی یہی معنی کرتے ہیں۔ خدا عرش پر مستوی ہے مگر ایسا نہیں جیسا انسان تخت پر بیٹھتا ہے۔ بلکہ اس طرح جس طرح اس کی شان کے لائق ہے یہ سبحان اللہ کا کلمہ کیا ہے یہی تنریہہ ہے ، خدا کی ذات پاک ہے ان تما تشبیہات ، کمزوریوں اور زمان و مکان سے۔ تو پنڈلی کو مانتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے جیسے اس کی شان کے ساتھ لائق ہے اس کی کیفیت میں بحث نہ کرو کہ یہ انسان کی فہم ہے بالا ہے۔ اور تشبیہ دے گا تو کفر و شرک میں مبتلا ہوجائے گا۔ کیونکہ اس طرح مادیت ثابت ہوگی۔ جو خدا کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اپنی عقل ، وہم اور خیال کے ساتھ جو تم انتہائی تصور کرسکتے ہو ، وہاں جا کر رک جائو اور کہہ دو کہ جو کچھ میرے تصور میں آیا ہے اللہ تعالیٰ اس کے خلاف ہے۔ خدا کی ذات بلندو برتر ہے۔ خدا کی ذات بہت عالی ہے۔ خدا کی شان بہت اونچی ہے۔ خدا کے مثل کوئی چیز نہیں وہ بےمثل ہے تو گویا یہاں معنی یہ کرنا پڑے گا جیسا اس کی شان کے ساتھ لائق ہے بحث کی ضرورت نہیں۔ اما م مالک (رح) فرماتے ہیں کہ خدا کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے۔ مگر کیفیت مجہول ہے۔ کیفیت کو مخلوق میں کوئی نہیں جا نتا۔ کہ وہ کس طرح مستوی ہے ۔ کرید کرو گے تو گمراہی میں پڑ جائو گے ، ایمان لائو اور یہی کہو جیسا اس کی شان کے ساتھ لائق ہے۔ ہماری عقل ناقص ہے۔ ہمارا فہم نارسا ہے اور وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ عام سلف صالحین نے کلام کیا ہے۔ ساق خدا کے کمال کی ایک جہت ہے : شاہ عبدالعیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ، خدا کی ایک ذات ہے۔ اور اس کی صفات ہیں ، اس کے اسماء اور صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ خدا رحمان اور رحیم ہے۔ ستار اور غفار ہے۔ یہ اس کی ساری صفات ہیں اور ننانویں نام ہیں ، صفات ذات سے الگ نہیں ہوا کرتیں۔ تو للہ تعالیٰ کے لیے ساق یا دیگر اعضاء کا جو ذکر ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے کمالات کی جہتیں ہیں اور وہ صفات سے الگ ہیں ان کمالات کی جہتوں میں ایک ساق بھی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے انسان کی پنڈلی بنیاد ہوتی ہے اور دوسرے اعضاء اس پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح ساق ایک حقیقت کو بیان کررہی ہے۔ اس سے مراد ایسی پنڈلی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اور خدا تعالیٰ کے کما ل کی جہت کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کمالات کی بہت سی جہوتوں میں سے دو جہتیں یعنی پنڈلی اور قدم ادنیٰ درجے کی ہیں۔ پنڈلی کا ظہور حشر میں ہوگا۔ اور قدم کا دوزخ میں مگر کفر اور مشرک ان اد نے ٰ جہتوں کو سمجھنے کے بھی قابل نہیں ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنی استعدادوں کو خراب کیا ہوا ہے۔ باقی جہات تو بہت بلند ہیں مثلاََ وجہہ ، سمع وغیرہ ان کو یہ لوگ کیسے سمجھ سکیں گے تو یہاں پنڈلی سے مراد وہ تشبیہ والی پنڈلی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ایک جہت کو بیان کرنا ہے جس کا ظہور ہوگا۔ کشف ساق سے مراد تجلی کا ظہور ہے : احادیث میں مختلف الفاظ آتے ہیں۔ کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پنڈلی کو کھولے گا یعنی کشف ساق ہوگا۔ شاہ ولی اللہ (رح) بڑے حکیمانہ طریقے پر فرماتے ہیں کہ اس وقت ایک خاص قسم کی تجلی کا ظہور ہوگا۔ اس کا اثر یہ ہوگا کہ ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت جب اس سمت کو دیکھیں گے تو سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ البتہ جس شخص نے دنیا میں اخلاص اور توحید کے ساتھ خدا کے حضور سجدہ نہیں کیا ، وہ وہاں پر سجدہ نہیں کرسکے گا۔ اس تجلی کے ظہور پر ایسے لوگوں کی پشتیں تخت کی مانند ہوجائیں گی ، جس کی وجہ سے وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کو دوزخ میں پھینکا جائے گا۔ ریا کار ، مشرک ، کافر سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ سجدہ صرف وہ لوگ کرسکیں گے جنہوں نے ایمان ، توحید اور اخلاص کے ساتھ دنیا میں سجدہ کیا ہوگا۔ مومن سجدہ ریز ہوجائیں گے : ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ، ابو سعید خدری ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ نے کشف ساق کی حقیقت اس طرح بیان کی ہے۔ ایک بہت بڑے نور کا انکشاف ہوگا۔ اس کو دیکھ کر تمام ایماندار سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ حضرت ابوسعید ؓ کی روایت میں یوں آتا ہے کہ روز حشر ہر اس معبود کو سامنے متمکن کیا جائے گا جس کی لوگ دنیا میں پوجا کرتے تھے۔ سورج پرست سورج کی طرف چلے جائیں گے اور چاند کے پجاری چاند کے پیچھے جائیں گے۔ اور آخر میں اس امت کے منافق اور مومن رہ جائیں گے۔ ان کی بھی ابتلا ہوگی۔ ان کے سامنے ایک خاص تجلی رکھی جائیگی مومن انکار کردیں گے کہ یہ ہمارا رب نہیں ہے۔ ہم اس کے سامنے سجدہ نہیں کرتے۔ انکار کردیں گے ، کہیں گے ہم دنیا میں کفر و شرک سے بچتے رہے ہیں۔ ہم سجدہ نہیں کریں گے۔ پھر ان کے سامنے وہ تجلی ظاہر کی جائے گی جس میں وہ اپنے رب کو پہچانتے ہیں۔ تو فوراََ سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ مگر منافق سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کی بات وہیں ختم ہوگئی۔ لہٰذا دوزخ میں جائیں گے۔ تو گویا نور عظیم کو کشف ساق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کشف ساق سے مراد انکشاف حقیقت ہے : اس لفظ کی ایک تیسری تعبیر بھی کی گئی ہے ۔ حضرت ابوسعید ضریر کہتے ہیں کشف ساق کا معنی ٰ حقیقت کا کھل جانا ہے۔ یعنی جس دن حقیقت کو کھول دیا جائے گا ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں سورة طارق میں جس دن سینے کے راز بھی کھل جائیں گے۔ جو حقیقتیں آج پوشیدہ ہیں ، قیامت کے دن کھول دی جائینگی ۔ عبادت کی حقیقت بھی کھول دی جائیگی تو کشف ساق کا مطلب ہے حقیقت کا کھولنا۔ دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں ۔ ایک وہ قسم جن کی عبادت حقیقت پر قائم ہے۔ دوسرے وہ لوگ جو عبادت اور ریاضت کرتے ہیں ۔ نمازیں بھی پڑھتے ہیں مگر ان کی یہ عبادت صحیح حقیقت پر قائم نہیں۔ قیامت کے دن عبادت کی اصلیت کا پتہ چلے گا جب دنیا میں بڑی عبادت و ریاضت کی مگر سب بیکار گئی۔ وہ محض تھکاوٹ ہی تھی کیونکہ صحیح حقیقت پر مبنی نہیں تھی۔ صحت عبادت کا انحصار معرفت الہیٰ پر ہے : حقیقی عبادت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اپنے رب کی پہچان کی جائے رب کی پہچان اس کی صفت سے ہوتی ہے۔ رب کون ہے پہلے اس کی صفت کو پہچانو۔ یہودیوں کے متعلق فرمایا انہوں نے خدا تعالیٰ کو صحیح نہیں پہچانا ۔ معاذبن جبل ؓ کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ۔ اے معاذ ! یمن میں جائو ۔ وہاں اہل کتاب بھی ہیں ، سب سے پہلے انہیں توحید کی دعوت دو ، توحید و رسالت کا سبق پڑھائو ، جب وہ پہچان لیں کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اپنی صفات کے ساتھ پھر ان کو کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کئے ہیں ، مال ہے تو زکوٰۃ فرض ہے۔ حج فرض ہے۔ اگر رب کی پہچان نہیں ہے۔ تو نہ نماز کسی ٹھکانے لگے گی نہ روزہ ، اسی لیے فرمایا کہ یہود نے خدا کو صحیح نہیں پہچانا۔ اور یہ پہچان ہی ضروری ہے جو انسان اللہ تعالیٰ کو صحیح پہچان کر عبادت کرے گا اس کی عبادت صحیح اصول پر ہوگی۔ اور اس کا اثر ظاہر ہوگا۔ اسی طرح جو انسان خدا تعالیٰ کو اور ا س کی صفت کو صحیح طور پر نہیں پہچانے گا اس کی عبادت رائیگاں جائیگی اور آدمی جہنمی ہوگا۔ مردود ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو جانتے تو سب ہیں ، مشرک جوگی ، پادری سب جانتے ہیں مگر صحیح طور پر نہیں پہچانتے۔ دنیا میں اکثر لوگ حجاب سو معرفت میں مبتلا ہیں۔ فرمایا جس دن ساق کھولی جائیگی اور ان کو سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ سجدے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ ان کی آنکھیں پست ہوں گی۔ سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی۔ دنیا میں ان لوگوں کو اللہ کی عبادت کے لیے بلایاجاتا تھا۔ اے لوگو ! رب کے سامنے سجدہ کرو۔ اس کی پہچان کے بعد اور عقیدہ درست کرنے کے بعد اس کی عبادت کرو۔ انسانو ! تمہارا رب وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ تمہارا خالق ، مالک ، رازق ، مدبر ، متصرف وہی ہے۔ ان صفات کو جاننے کے بعد ہی انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ کہ خدا تعالیٰ منزہ اور مبرا ہے۔ وہ لم یلد ولم یولد ہے۔ اس کی اولاد نہیں۔ وہ کھاتا پیتا نہیں ، پاک ہے منزہ اور مبرا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کا مذ کوئی نہیں ہے۔ یہ ساری پہچان ہی ہے جب یہ صحیح ہوجائے تو اس کی عبادت کرو۔ اس طرح سے کی ہوئی عبادت ہی ٹھکانے لگے گی۔ عقیدہ تشبیہ اور شرک : جنہوں نے دنیا میں خدا تعالیٰ کو صحیح طور پر نہیں پہچانا ان میں تشبیہ والے بھی ہیں ۔ جیسے ابینت والے جو خدا کی اولاد مانتے ہیں۔ یہ لوگ تشبیہ کے عقیدے میں مبتلا ہیں کہ خدا تعالیٰ کو مخلوق کے مثابہ بنایا۔ بیوی بچے ہونا مخلوق کی شان ہے۔ انہوں نے مخلوق کی یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کی۔ تو وہ عقیدہ تشبیہ میں مبتلا ہوگئے۔ اسی طرح جن لوگوں نے خدا کی صفت خاصہ مخلوق میں ثابت کی وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ اللہ کے سوا مدبر کوئی نہیں۔ مگر انہوں نے قبروں والوں کو بھی مدبر جانا۔ لات وعزیٰ کو مدبر جانا۔ نبیوں کو مدبر جانا ۔ افوق الاسباب کوئی کسی کی فریاد نہیں سنتا مگر انہوں نے یہ بھی مانا تو شرک کے مرتکب ہوئے۔ خدا کی صفت علیم کل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ولی بھی جانتے ہیں۔ ہماری ضرورتوں کی غائبانہ طور پر جانتے ہیں خدا تعالیٰ ہر جگہ حاضرو ناظر ہے۔ یہی صفت وہ دوسروں میں بھی مانتے ہیں۔ حالانکہ علیم کا اور حاضر ناظر سوائے خدا کے اور کوئی نہیں۔ خدا کے سوا نہ کوئی مدبر ہے۔ نہ خالق ہے۔ نہ معبود ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ نہیں اور بھی ہیں ان کی عبادت کے بغیر خدا کی عبادت ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ تمام چیزیں شرک کے اندر آتی ہیں۔ تو اس طرح گویا شرک ہے یا تشبیہ۔ حجاب سوہ معرفت : شاہ ولی اللہ اسے حجاب سوء معرفت سے تعبیر کرتے ہیں۔ انسان یا تو حجاب طبع میں مبتلا ہے۔ یا حجاب رسم میں طبعی ضروریات مثلاََ کھانا ، پینا ، مکان ، دکان وغیرہ حجاب طبع میں آتے ہیں جب کہ رسم و رواج کو ادا کرنے والے لوگ حجاب رسم میں مبتلا ہیں ، تیسری قسم کے لوگ حجاب سوء معرفت میں مبتلا ہیں۔ اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان حجابات سے آگے نکل کر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتے ہیں۔ اور خدا کی صحیح عبادت کرتے ہیں۔ تو فرمایا یعنی دنیا میں ان کو سجدہ کی طرف بلایا جاتا تھا اور وہ صحیح سلامت تھے۔ تندرست تھے ان کو دعوت دی جارہی تھی کہ خدا کے سامنے سجدہ کرو آج تمہیں اس کا اختیار ہے۔ یہ کل سلب ہوجائے گا۔ مگر انہوں نے اس وقت دنیا میں سجدہ نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کی پشت تختہ بن جائے گی اور وہ سجدہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے۔ استدراج کیا ہے : رسالت اور جزائے عمل کے بارے میں یعنی چھوڑ دیں مجھے اور ان کو جو اس بات کو جھٹلاتے ہیں کہ عبادت صرف خدا کی ہی صحیح اصول پر ہونی چاہیے اور نیز یہ کہ نبی حق ہے اور قیامت ضرور آنے والی ہے۔ کیوں اس لیے کہ ہم ان کو آہستہ آہستہ سیڑھیوں پر چڑھائیں گے۔ جہاں سے ان کو پتہ بھی نہیں ہوگا ۔ استدراج آہستہ آہستہ چڑھانے کو کہتے ہیں۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ جب تم دیکھوا یک شخص کو نافرمانی کے باوجود نعمتیں مل رہی ہیں تو جان لو کہ یہ شخص استدراج میں مبتلا ہے۔ یعنی یہ شخص خدا کی دی ہوئی مہلت سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں یہ الفاظ اس طرح آتے ہیں خدا ظالم کو مہلت دیتا ہے۔ پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں۔ اسے سزا کے شکنجے میں جکڑ دیتا ہے۔ یہی استدراج ہے کہ معاصی اور نافرمانی کے باوجود نعمتیں مل رہی ہیں۔ لہذا ایسے شخص کو دیکھ کر شبہ میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کہ شاید یہ آدمی اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں ان کو مہلت دیتا ہوں میری تدبیر مضبوط ہے اور یہ لوگ میری تدبیر سے باہر کہاں جاسکتے ہیں۔ خیر خواہوں کی نصحیت سے اعراض : رسالت ہی کے بیان میں آگے فرمایا کہ جب آپ ان کو حقائق سے آگاہ کرتے ہیں تو کیا یہ اس لیے انکار کرتے ہیں کہ آپ ان سے کچھ مزدوری طلب کرتے ہیں ، معاوضہ یا فیس مانگتے ہیں۔ کیا یہ اس تاوان کی وجہ سے بوجھل ہور ہے ہیں۔ کوئی معاوضہ طلب کرتا ہے تو گراں گذرتا ہے۔ کہ یہ تو اپنا مطلب پورا کررہا ہے۔ فرمایا یہ بات نہیں ہے کیونکہ تمام انبیاء کرام لوگوں کو صاف بتلاتے ہیں ہم اپنی تعلیم و تبلیغ کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتے تم اپنے ذہن صاف رکھو۔ یعنی ہمارا بدلہ تو رب العل میں کے ذمہ ہے۔ ہی ہمیں دے گا۔ ہم کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے بلکہ ہم تو خیر خواہی کرتے ہیں۔ تمام نبی یہی کہتے رہے۔ ہم تو تمہاری خیر خواہی کرتے ہیں مگر افسوس کہ تم خیر خواہوں کی بات کو نہیں مانتے۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ لوگوں نے سچے اور مخلص خیر خواہوں کی بات کو نہیں مانا۔ خود غرضوں کے پیچھے اور باطل پرستوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں چوہدریوں اور غلط کا لوگوں کے پیچھے لگے ہیں۔ مخلص اور خیر خواہوں کی بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔ آج کے دولتمند کل کے قلاش : یہ جو کہتے ہیں کہ آج ہم آسودہ حال میں تو کل کو اگر قیامت آبھی گئی تو بھی ہم ہی اچھے ہونگے اور مسلمان جو یہاں مادی اعتبار سے کمزور ہیں قیامت کو بھی ان کی حالت اچھی نہیں ہوگی تو اس سلسلے میں ارشاد ہوا کیا ان کے پاس غیب ہے کیا وہ اس بات کو جانتے ہیں۔ بلکہ فرمایا یہ غلط ہے۔ جھوٹ کہتے ہیں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو آج اچھا ہے کل بھی اچھا ہوگا ، جو آج دولت مند ہے کل بھی دولت مند ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے یعنی جو آج زیادہ دولت مند ہیں کل قیامت کے دن بڑے ہی محتاج ہوں گے۔ ابو جحیفہ ؓ اس حالت میں حضور ﷺ کے پاس آئے کہ گوشت روٹی سے پیٹ خوب بھرا ہوا تھا۔ اور ڈکار مار رہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اپنے ڈکاروں کو روکو۔ جو آج دنیا میں پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کل قیامت کے دن زیادہ بھوکے ہوں گے۔ اس کے بعد ابوجحیفہ ؓ جب تک زیدہ رہے ، دن میں کبھی پیٹ بھر کر دو مرتبہ روٹی نہیں کھائی۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے آج کے زیادہ دولت مند کل زیادہ محتاج ہوں گے۔ کیونکہ دولت مند حقوق ادا نہیں کرتے حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ تھوڑے لوگ جو دولت و صحیح طورپرا ستعمال کرے ہیں اسکے فرض اور واجب تما م حقوق ادا کرتے ہیں۔ وہ آج بھی دولت مند ہیں۔ کل بھی دولت مند ہوں گے ورنہ آج کے دولت مند کل کے قلاش اور آج کے بھرے ہوئے پیٹ والے کل کے بھوکے ہوں گے۔ تو فرمایا کیا ان کے پاس کوئی غیب کی خبر ہے۔ کہ جو آج اچھے ہیں ۔ کل بھی اچھے ہوں گے۔ یہ تو کافر اور مجرمین ہیں۔ کل ان کا بُرا حال ہوگا۔
Top