Al-Quran-al-Kareem - Al-Haaqqa : 7
سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍۚ
سَخَّرَهَا : مسلط کردیا اس کو عَلَيْهِمْ : ان پر سَبْعَ لَيَالٍ : ساتھ راتوں تک وَّثَمٰنِيَةَ : اور آٹھ اَيَّامٍ : دن حُسُوْمًا : پے درپے۔ مسلسل فَتَرَى الْقَوْمَ : تو تم دیکھتے لوگوں کو۔ قوم کو فِيْهَا صَرْعٰى : اس میں گرے ہوئے ہیں كَاَنَّهُمْ : گویا کہ وہ اَعْجَازُ : تنے ہیں نَخْلٍ : کھجور کے درخت کے خَاوِيَةٍ : خالی۔ کھوکھلے
اس نے اسے ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلائے رکھا۔ سو تو ان لوگوں کو اس میں اس طرح (زمین پر) گرے ہوئے دیکھے گا جیسے وہ کھجوروں کے گرے ہوئے تنے ہوں۔
(سخر ھا علیھم سبع لیال …:”حسوماً“ کا معنی ابن عباس ؓ عنہمانے ”پے در پے“ کیا ہے۔ (ابن جریر) اس صورت میں یہ ”حسمت الدابۃ“ (میں نے جانور کو پے در پے داغ لگائے) سے مشتق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے وہ آندھی ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلائے رکھی، ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں رکی۔”حسم یحسم“ (ض) کا معنی ”جڑ سے کاٹنا“ بھی ہے۔ اس صورت میں یہ ”حاسم“ کی جمع ہے ، جیسے ”شاھد“ کی جمع ”شھود“ ہے، معنی ہوگا ”ان پر وہ آندھی جڑ سے کاٹ ڈالنے والی سات راتوں اور آٹھ دنوں تک چلائے رکھی۔“”حسوماً“ مصدر بھی ہوسکتا ہے، جیسے ”شکور“ اور ”کفور“ ہے، اس صورت میں یہ مفعول لہ ہوگا، یعنی ان پر وہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن جڑ سے کاٹ ڈالنے کے لئے چلائے رکھی۔ مزید تراکیب کے لئے دیگر کتب تفاسیر ملاحظہ فرمائیں۔”صرعی“”صریع“ کی جمع ہے، پچھاڑ کر گرائے ہوئے، ہلاک کئے ہوئے۔”اعجاز“”عجز و عجز“ کی جمع ہے، کسی چیز کا آخری حصہ، درخت کا تنا۔”خاویۃ“ ”خوی یخوی“ (ض) گرپڑنا، خالی ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد سے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ایک عرصہ تک بارش روکے رکھی، ادھر وہ پیغمبر کو زچ کرنے کے لئے بار بار عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے، جب عذاب بادل کی صورت میں نمودار ہو اور انہوں نے اسے اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو خوش ہوگئے کہ اب بارش ہوگ ی، مگر تھوڑی ہی دیر میں عذاب شروع ہوگیا ، جو مغرب کی طرف سے آنے والی تیز ٹھنڈی آندھی کی صورت میں تھا، جس نے ہر چیز کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة احقاف (21 تا 26)۔ سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلنے کے بعد آندھی تھمی تو ان کی لاشیں اس طرح گری ہوئی تھیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے اہل ایمان کے علاوہ ایک شخص بھی باقی نہ بچا۔ اس تشبیہ سے اس قوم کا مضبوط جسامت اور لمبے قدوں والا ہونا صاف معلوم ہو رہا ہے۔ سورة احقاف (26) اور سورة فجر (8 تا 10) میں ان کی قوت و شوکت کا کچھ حال بیان ہوا ہے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(نصرت بالصبا، واھلکت عاد بالدبور) (بخاری، احادیث الانبیائ، باب قول اللہ تعالیٰ (واما عاد…): 3333۔ مسلم : 900)”خندق کے موقع پر) میری مدد صبا یعنی مشرق سے آنے والی ہوا کے ساتھ کی گئی اور عاد کو دبور یعنی مغرب سے آنے والی ہوا کے ساتھ ہلاک کیا گیا۔“
Top