Fi-Zilal-al-Quran - Al-Haaqqa : 7
سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍۚ
سَخَّرَهَا : مسلط کردیا اس کو عَلَيْهِمْ : ان پر سَبْعَ لَيَالٍ : ساتھ راتوں تک وَّثَمٰنِيَةَ : اور آٹھ اَيَّامٍ : دن حُسُوْمًا : پے درپے۔ مسلسل فَتَرَى الْقَوْمَ : تو تم دیکھتے لوگوں کو۔ قوم کو فِيْهَا صَرْعٰى : اس میں گرے ہوئے ہیں كَاَنَّهُمْ : گویا کہ وہ اَعْجَازُ : تنے ہیں نَخْلٍ : کھجور کے درخت کے خَاوِيَةٍ : خالی۔ کھوکھلے
اللہ تعالیٰ نے مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط رکھا ، تم دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح پچھڑے پڑے ہیں گویا وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔
سخرھا ................ حسوما (96 : 7) ” اللہ تعالیٰ نے مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کیا “۔ الحسوم کے معنی مسلسل کاٹ دینے والی۔ یہ شدید چلنے والی ، دھاڑتی چنگھارتی اور تباہی مچاتی ہوئی ، اس طویل عرصے کے لئے مسلسل جاری تھی۔ جس وقت قرآن تعین کے ساتھ کررہا ہے۔ فتری .................... خاویة (96 : 7) ” تم دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح پچھڑے پڑے ہیں گویا وہ کھجور کے بوسیدہ تنے “۔ گویا یہ منظر اسکرین پر پیش ہورہا ہے یا سامنے ہے۔ انداز تعبیر ایسا ہے کہ پردہ احساس پر منظر نمودار ہوجاتا ہے۔ صرعی ۔ وہ گرے پڑے اور بکھرے ہوئے۔ گویا وہ ایسے ہیں جیسے اعجاز نخل۔ (کھجور کے تنے جڑوں اور تنوں کے ساتھ) خاویہ یعنی بوسیدہ جو اندر سے خالی ہوں اور بوسیدگی کی وجہ سے جگہ جگہ گرے ہوئے ہوں۔ یہ ایک ایسا منظر ہے کہ چندالفاظ میں اس کا نقشہ قرآن ہی کھینچ سکتا ہے۔ اب نہایت ہی ٹھہراﺅ ہے اور وہ منظر کہ جب ہوا چنگھاڑتی ہوئی گزر گئی ہے۔ فھل ............ باقیة (96 : 8) ” پھر کیا اب ان میں سے کوئی باقی بچا ہوا نظر آتا ہے “۔ نہیں کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ ویرانی ہی ویرانی ہے۔ یہ تو ہے عاد وثمود کا قصہ ، یہی حال ہے دوسرے مکذبین کا۔ اب فقط دو آیات میں کئی واقعات۔
Top