Tafseer-e-Mazhari - Al-Haaqqa : 7
سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍۚ
سَخَّرَهَا : مسلط کردیا اس کو عَلَيْهِمْ : ان پر سَبْعَ لَيَالٍ : ساتھ راتوں تک وَّثَمٰنِيَةَ : اور آٹھ اَيَّامٍ : دن حُسُوْمًا : پے درپے۔ مسلسل فَتَرَى الْقَوْمَ : تو تم دیکھتے لوگوں کو۔ قوم کو فِيْهَا صَرْعٰى : اس میں گرے ہوئے ہیں كَاَنَّهُمْ : گویا کہ وہ اَعْجَازُ : تنے ہیں نَخْلٍ : کھجور کے درخت کے خَاوِيَةٍ : خالی۔ کھوکھلے
خدا نے اس کو سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلائے رکھا تو (اے مخاطب) تو لوگوں کو اس میں (اس طرح) ڈھئے (اور مرے) پڑے دیکھے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے
سخرھا علیھم . اللہ نے اپنی قدرت سے اس طوفان کو عاد پر مسلط کردیا تھا۔ جملہ استینافیہ ہے یا ریح کی صفت ہے۔ اس سے (نجومیوں کے) اس خیال کو دفع کرنا مقصود ہے کہ حادثہ طوفان (اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا عذاب نہ تھا بلکہ) آسمانی چکروں سے پیدا شدہ (معمولی نیچرل) حادثہ تھا۔ سبع لیال و ثمانیۃ ایام . سات رات اور آٹھ روز تک بدھ کے دن کی صبح سے آئندہ بدھ کی شام تک۔ وہب نے بیان کیا کہ یہ طوفان ان ایّام میں آیا تھا جن کو عرب ایام عجوز پچھلی سردی کے دن کہتے تھے۔ ان دنوں میں سخت سردی اور تیز ہوائیں ہوتی تھیں۔ ان ایام کو عجوز (بوڑھی) کہنے کی یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قوم عاد کی ایک بوڑھی عورت طوفان سے بچنے کے لیے ایک تہہ خانہ میں گھس گئی تھی لیکن ہوا نے اس کو وہاں بھی جا لیا۔ یہ عذاب کے آٹھویں دن کا واقعہ تھا۔ اس کے بعد عذاب ختم ہوگیا۔ حسوما . پیہم۔ یہ حاسم کی جمع ہے حسام ال کی بیماری کے مقام پر پیہم اس حد تک داغنا کہ مرض جاتا رہے۔ (مجاہد و قتادہ) یا حسو ماً کا معنی ہے منحوس۔ دوسری آیت میں آیا ہے : فی ایام تحسات (اس وقت حسمٌ سے مشتق ہوگا اور حسم کا معنی ہے بیخ کنی) یعنی ایسے دن رات جس میں ہر بھلائی کی بیخ کنی ہوگئی تھی۔ (عطیہ) یا کاٹ دینے والی جس کی وجہ سے انکی نسل منقطع ہوگئی (زجاج اور نضر بن شمیل) یہ بھی ممکن ہے کہ حسومًا (جمع نہ ہو) مصدر ہو اور فعل مقدر کا مفعول مطلق یا علت فعل سابق (مفعول لہٗ ) ہو (یعنی اللہ نے ایّام طوفان کو ان کی بیخ کنی یا قطع نسل کے لیے مسلط فرمایا) ۔ فتری . حال ماضی کی حکایت ہے ‘ مخاطب عام ہے کوئی ہو۔ القوم . یعنی عاد۔ فیھا . ان راتوں اور دنوں میں یا ان کے درمیان۔ صرعی . زمین پر پڑے ہوئے صریعٌ کی جمع اور صریعٌ اسم مفعول کے معنی میں ہے۔ اگر رویت قلب سے ہو (یعنی دل کی آنکھوں سے دیکھنا اور جاننا) تو صرعٰی ترٰی کا دو سرا مفعول ہوگا ورنہ القوم کی حالت کا اظہار ہوگا۔ کانھم اعجاز نخل خاویۃ . اَعْجَاز ‘ جڑیں۔ خاویۃ ‘ کھوکھلا۔
Top