Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 31
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ١ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اِتَّخَذُوْٓا : انہوں نے بنا لیا اَحْبَارَهُمْ : اپنے احبار (علما) وَرُهْبَانَهُمْ : اور اپنے راہب (درویش) اَرْبَابًا : رب (جمع) مِّنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَالْمَسِيْحَ : اور مسیح ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم وَمَآ : اور نہیں اُمِرُوْٓا : انہیں حکم دیا گیا اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْٓا : یہ کہ وہ عبادت کریں اِلٰهًا وَّاحِدًا : معبود واحد لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شرک کرتے ہیں
انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں، کوئی معبود نہیں مگر وہی، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ : ”حَبْرٌ“ حاء کی زبر اور زیر دونوں کے ساتھ آتا ہے اور باء ساکن ہے، وہ عالم جو بہت خوب صورت اور پختہ بات کہے۔ یہ ”تَحْبِیْرٌ“ سے ہے جس کا معنی مزین کرنا ہے۔ رہبان، راہب کی جمع ہے، ڈرنے والا، یعنی جو اللہ کے خوف سے دنیا ترک کر کے لوگوں سے الگ کسی کٹیا میں جا ڈیرہ لگائے۔ ان کے مسیح ابن مریم ؑ کو رب بنانے کا ذکر تو اوپر بھی آچکا ہے، کیونکہ بیٹا باپ کے اختیارات میں اس کا شریک اور جانشین ہوتا ہے، اس لیے مسیح ؑ کو بیٹا ماننے پر ان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی۔ رہے ان کے عالم اور درویش تو انھیں رب بنانے والے کچھ لوگ تو وہ تھے جو واقعی کائنات میں ان کا حکم چلنے کا عقیدہ رکھتے تھے، جس طرح آج کل بعض مسلمان پیروں، فقیروں کو سجدہ کرتے، ان سے اولاد، حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں اور یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ کائنات کو قطب، ابدال اور اوتاد چلا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ان پہلوں ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، مگر بعض اہل کتاب نے انھیں ایک اور طریقے سے رب بنا رکھا تھا۔ چناچہ عدی بن حاتم طائی، جو مسلمان ہوچکے تھے، فرماتے ہیں میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : ”یہ بت اپنے آپ سے اتار کر پھینک دو۔“ اور میں نے آپ سے سنا کہ آپ سورة براءت میں یہ آیت پڑھ رہے تھے : (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ) میں نے کہا : ”احبارو رہبان کو رب تو کوئی نہیں مانتا۔“ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے، لیکن وہ جب ان کے لیے کوئی چیز حلال کردیتے اسے حلال سمجھ لیتے اور جب ان پر کوئی چیز حرام کرتے تو اسے حرام سمجھ لیتے۔“ [ ترمذی، التفسیر، باب و من سورة التوبۃ : 3095 و حسنہ الألبانی ] گویا یہ ان کا دوسرا شرک تھا کہ انھوں نے حلال و حرام قرار دینے کا اختیار اپنے مشائخ و علماء کو دے دیا، حالانکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور ان پر لازم تھا کہ اپنے نبی کے بتائے ہوئے طریقے اور فرامین پر قائم رہتے۔ بالکل یہی طرز عمل ہمارے زمانے کے مقلدین کا ہے کہ ان کے امام کا قول صاف قرآن یا صحیح حدیث کے خلاف آجائے تب بھی وہ قرآن اور صحیح حدیث ماننے کے بجائے اپنے امام کے حلال کردہ کو حلال اور اس کے حرام کردہ کو حرام کہیں گے، پھر اس پر اصرار کریں گے، مثلاً قرآن مجید کا صاف حکم ہے کہ رضاعت کی مکمل مدت دو سال ہے، مگر کچھ لوگوں نے اسے ماننے کے بجائے اپنے امام کے کہنے پر اسے اڑھائی سال قرار دے لیا اور رسول اللہ ﷺ کے صحیح اور صریح فرمان : ”ہر نشہ آور حرام ہے“ کے باوجود کھجور اور انگور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی نشہ آور چیز کو حلال قرار دے لیا، زنا کو حلالہ کہہ کر حلال کرلیا، اجرت پر لائی عورت سے زنا پر حد معاف کردی، تیز دھار آلے اور آگ کے سوا جان بوجھ کر کسی بھی طریقے سے قتل کردینے پر قصاص ختم کردیا، بادشاہ وقت سے اللہ تعالیٰ کی کئی حدود بالکل ہی معاف کردیں، چور کے چوری کے مال پر ملکیت کے خالی دعوے سے، جس پر وہ کوئی دلیل بھی نہ دے، چوری کی حد ختم کردی، گانے بجانے اور رقص کو مشائخ کے کہنے پر معرفت اور روح کی غذا قرار دے لیا اور بعض مشائخ و علماء نے عوام سے یہ بیعت لینا شروع کردی کہ ہمارا ہر حکم، خواہ وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو یا مخالف، تم مانو گے۔ بتائیے ان مسلمانوں کے احبارو رہبان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی ؟ ! خلاصہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا وہ فرمان بالکل پورا ہوا کہ تم ہو بہو پہلے لوگوں کے نشان قدم پر چل پڑو گے، پھر ہر گروہ کے اپنے پیشوا کی غلط باتوں پر ڈٹ جانے سے مسلمانوں میں ایسا شگاف پڑا جو قرآن و حدیث کی طرف واپس آنے کے بغیر کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ ”اِتَّسَعَ الْخَرْقُ عَلَی الرَّاقِعِ“ کی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ شگاف پیوند لگانے والے کی بساط سے بھی زیادہ کھلا ہوگیا۔ پہلے (72) گروہ بنے تھے یہ (73) بن گئے۔ [ فَإِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] یہودو نصاریٰ کا اپنے احبارو رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دینا انھیں رب بنانا تھا، اب جب یہود و نصاریٰ نے احبارو رہبان کے کرتوتوں کو دیکھ کر ان سے بغاوت کردی تو عوام کی اکثریت کو حلال و حرام کا اختیار دے کر انھیں رب بنا لیا اور اس نئے دین کا نام جمہوریت رکھا، جس میں حلال و حرام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجائے پارلیمنٹ کی اکثریت کرتی ہے، جو صریح شرک ہے۔ افسوس کہ مسلمان اس شرک میں ان کے قدم بہ قدم چل رہے ہیں، بلکہ اسلام سے اس بغاوت پر فخر کرتے اور دن رات اس کی تعریف کرتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتے کہ رسول اللہ ﷺ بھی جمہوریت نافذ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان بےچاروں کو معلوم نہیں کہ جمہوریت صرف ان امور میں مشورے کا نام نہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کا حکم موجود نہ ہو بلکہ یہ ایک الگ دین ہے جس کا رب بھی عوام یا ان کے نمائندے ہیں اور رسول بھی۔ انھی کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز قرار دینے کا حق حاصل ہے۔ اس دین میں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول یا اس کی کتاب کا کچھ دخل نہیں، ہاں دھوکا دینے کے لیے ان کا نام استعمال ہوتا ہے۔ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ : مسیح ابن مریم ؑ کو دوبارہ لا کر ان کا رب بنانا اس لیے ذکر فرمایا کہ یہودیوں نے عزیر ؑ یا علماء و رہبان کی پرستش اس طرح نہیں کی تھی جس طرح نصاریٰ نے مسیح ؑ کی کی اور نہ وہ اس معنی میں عزیر ؑ کو اللہ کا بیٹا ماننے کا اقرار کرتے ہیں جن معنوں میں نصاریٰ مسیح ؑ کو بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ رہے احبارو رہبان تو ان کو یہود و نصاریٰ دونوں نے ایک ہی معنی میں رب بنایا تھا۔ پیچھے اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کا ذکر کرکے ان کی اس دلیل کو بھی بےمعنی قرار دیا تھا کہ وہ تو باپ اور ماں دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے، اگر وہ رب نہیں تو ماں سے پیدا ہونے والا کیسے رب ہوگیا ؟ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا : یعنی یہ تمام بےہودگی یہودو نصاریٰ نے تورات میں موجود واضح احکام کے باوجود اختیار کی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، جو اب بھی تورات کی تحریف کے باوجود مختلف الفاظ کے ساتھ اس میں جا بجا موجود ہیں۔
Top