Anwar-ul-Bayan - Yunus : 89
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا قَدْ اُجِيْبَتْ : قبول ہوچکی دَّعْوَتُكُمَا : تمہاری دعا فَاسْتَقِيْمَا : سو تم دونوں ثابت قدم رہو وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ : اور نہ چلنا سَبِيْلَ : راہ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی جو لَايَعْلَمُوْنَ : ناواقف ہیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی سو تم دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستہ کا ہرگز اتباع نہ کرو جو نہیں جانتے
فرعون اور آل فرعون کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا ‘ فرعون کا غرق ہونا ‘ اور عبرت کیلئے اس کی نعش کا باقی رکھا جانا فرعون اور اس کی قوم مصر میں صاحب اقتدار تھے ان کے پاس اموال تھے ‘ زیب وزینت کے ساتھ رہتے تھے اور بنی اسرائیل جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر جا کر آباد ہوگئے تھے وہ وہاں پر دیسی تھے اور چونکہ اہل مصر یعنی قبطیوں کی قوم میں سے نہ تھے اس لئے ان سے محنت کے کام لئے جاتے تھے بلکہ ان سے بیگاریں لیتے تھے۔ بنی اسرائیل مال کے اعتبار سے بھی بہت کمزور تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بار گاہ الٰہی میں عرض کیا کہ اے اللہ ! آپ نے ان لوگوں کو دنیاوی سازو سامان دیا ہے جو اس بات کا ذریعہ بن رہا ہے کہ وہ لوگوں کو آپ کے راستہ سے ہٹائیں اور گمراہ کریں۔ آپ ان کے مالوں کو ختم کردیجیے اور ان کے دلوں کو سخت کر دیجئے تاکہ یہ درد ناک عذاب دیکھنے تک ایمان نہ لائیں اور کفر کی سزا دنیا میں اور آخرت میں چکھ لیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے جاتے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے جاتے تھے۔ دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہنا بھی دعا میں شریک ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔ سو تم ثابت قدم رہو اور استقامت کے ساتھ کار مفوضہ انجام دیتے رہو اور جو لوگ نادان ہیں ان کی راہ کا اتباع نہ کرو (تمہاری مدد کا وعدہ تو ہے لیکن اس کے ظہور میں جو دیر لگے اس دیر سے مت گھبرانا جیسا کہ وہ لوگ گھبرا جاتے ہیں جو عادۃ اللہ کو نہیں جانتے اور جن کی اللہ کی حکمتوں پر نظر نہیں ہوتی) صاحب روح المعانی نے (فََاسْتَقِیْمَا وَلَا تَتَّبِعٰنِ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ) کی یہی تفسیر کی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن جریج اور حضرت مجاہد ؓ سے نقل کیا ہے کہ چالیس سال کے بعد اس دعا کا نتیجہ ظاہر ہوا۔ فرعون اور اس کا لشکر ہلاک ہوا ‘ اور بنی اسرائیل نے ان کے شر سے نجات پائی۔ جب دعاء کی قبولیت یعنی اس کا اثر ظاہر ہونے کا وقت آیا حسب فرمان باری تعالیٰ شانہ حضرت موسیٰ اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے چل دئیے اور سمندر پر پہنچ گئے۔ سمندر پر لاٹھی ماری تو سمندر ٹھہر گیا اور اس کے ٹکڑے ہوگئے یعنی اس میں راستے نکل آئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر اس میں سے گزر گئے۔ فرعون اور اس کی قوم کو یہ بھی گوارانہ ہوا کہ بنی اسرائیل کو مصر چھوڑ کر صحیح سالم جانے دیں۔ یہ لوگ سینکڑوں سال سے بنی اسرائیل پر ظلم و زیادتی کرتے آ رہے تھے ان کے چلے جانے سے متفکر ہوتے تھے کہ اب ہماری خدمت کون کرے گا ان کا تعاقب کرنے کے لئے فرعون اپنا لشکر لے کر آیا۔ یہ لوگ بنی اسرائیل کے پیچھے سمندر کے راستوں میں گھس گئے (جو اللہ نے پیدا فرما دئیے تھے) اور بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے سمندر کو ملا دیا سارے راستے ختم ہوگئے اور سارا سمندر ایک ہوگیا ‘ لہٰذا فرعون اور اس کے لشکری سب اس میں ڈوب گئے جیسا کہ سورة طہ اور سورة شعراء اور سورة دخان میں بیان فرمایا ہے۔ سورة بقرہ میں بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنا انعام یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَاِذْفَرَقْنَابِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ) (اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا۔ سو ہم نے تمہیں نجات دے دی اور آل فرعون کو غرق کردیا اور حالت یہ تھی کہ تم دیکھ رہے تھے) ۔ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بولا کہ بنی اسرائیل جس ذات کے معبود ہونے پر ایمان لائے میں اسی ذات پر ایمان لاتا ہوں اور میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں ‘ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں کے دین کو قبول کر کے میں بھی غرق ہونے سے بچ جاؤں جیسا کہ یہ لوگ بچ گئے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب موت کے احوال نظر آنے لگیں اس وقت ایمان معتبر نہیں لہٰذا اس وقت اس کا ایمان لانا اس کے حق میں کچھ بھی مفید نہ ہوا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو یہ خطاب کیا گیا (آلْءٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ) (کیا اب تو ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور تو فساد کرنے والوں میں سے ہے) روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس بات کے کہنے والے حضرت جبرائیل یا حضرت میکائیل ( علیہ السلام) تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرعون کو یہ بھی کہا گیا (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ) سو آج ہم تیرے بدن کو نجات دے دیتے ہیں۔ یعنی تیری لاش کو پانی میں بہا دینے کی بجائے پانی کے اوپر تیرا دیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بن جائے۔ بعد میں آنے والے تجھ سے عبرت لیں اور دیکھیں کہ اللہ کے باغی کا کیا انجام ہوا۔ اور یہ بھی سمجھ لیں کہ دنیا میں کوئی شخص کیسا ہی سلطنت اور دبدبہ والا ہو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ کوئی شخص اپنی سلطنت پر گھمنڈ نہ کرے۔
Top