Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ
كُلُّ نَفْسٍ : ہر جی ذَآئِقَةُ : چکھنا الْمَوْتِ : موت وَنَبْلُوْكُمْ : اور ہم تمہیں مبتلا کرینگے بِالشَّرِّ : برائی سے وَالْخَيْرِ : اور بھلائی فِتْنَةً : آزمائش وَاِلَيْنَا : اور ہماری ہی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر آؤگے
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور ہم تمہیں بری اور بھلی حالتوں کے ذریعہ اچھی طرح آزماتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف واپس کردیئے جاؤ گے،
آپ سے پہلے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے تھے وہ بھی تو وفات پا گئے لہٰذا اس انتظار میں رہنا کہ ان کی وفات ہوجائے تو ہم لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ یہ نبی ہوتے تو وفات کیوں پاتے، ان کی ناسمجھی کی دلیل ہے۔ مزید فرمایا (وَ نَبْلُوْکُمْ بالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً ) (ہم تمہیں بطور آزمائش شر اور خیر کے ساتھ جانچیں گے) یعنی تمہارا امتحان کریں گے اس زندگی میں اچھی حالت بھی پیش آئے گی (جیسے تندرستی، مالداری، خوشی اور ازواج اولاد کا موجود ہونا) اور بد حالی بھی پیش آئے گی (مثلاً رنجیدہ ہونا، مرض اور تنگدستی کا پیش آنا، اولاد کا مرنا وغیرہ وغیرہ) زندگی میں یہ سب چیزیں آزمائش کے طور پر پیش آتی ہیں۔ کون ایمان لاتا ہے اور اللہ کا فرمانبر دار ہوتا ہے، اور کون کفر اور نافرمانی کی زندگی گزارتا ہے، مختلف احوال سے اشخاص و افراد کو آزمایا جاتا ہے۔ اسی آزمائش میں یہ بھی ہے کہ بعض مرتبہ کافر دنیاوی احوال کے اعتبار سے آرام اور آسائش میں ہوتے ہیں اور اہل ایمان تنگدستی اور مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان فقراء اور مساکین کو دیکھ کر اہل کفر یوں سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے محبوب بندے ہیں اور اس طرح آزمائش میں فیل ہوجاتے ہیں۔ اپنی آسائش اور خوشحالی کو کفر پر جمنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں (العیاذ باللہ) (وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ) (اور تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے یعنی قیامت کے دن حاضر کیے جاؤ گے) اس دن حق اور ناحق کے فیصلے کردیئے جائیں گے۔
Top