Tafseer-e-Usmani - Al-Anbiyaa : 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ
كُلُّ نَفْسٍ : ہر جی ذَآئِقَةُ : چکھنا الْمَوْتِ : موت وَنَبْلُوْكُمْ : اور ہم تمہیں مبتلا کرینگے بِالشَّرِّ : برائی سے وَالْخَيْرِ : اور بھلائی فِتْنَةً : آزمائش وَاِلَيْنَا : اور ہماری ہی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر آؤگے
ہر جی کو چکھنی ہے موت14 اور ہم تم کو جانچتے ہیں برائی سے اور بھلائی سے آزمانے کو1 اور ہماری طرف پھر کر آجاؤ گے2
14 یعنی جس طرح مذکورہ بالا مخلوقات کا وجود حق تعالیٰ کی ایجاد سے ہوا۔ تمام انسانوں کی زندگی بھی اسی کی عطا کردہ ہے جس وقت چاہے گا چھین لے گا۔ موت ہر ایک پر ثابت کر دے گی کہ تمہاری ہستی تمہارے قبضہ میں نہیں۔ چند روز کی چہل پہل تھی جو ختم ہوئی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " کافر حضور کی باتیں سن کر کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم محض اس شخص کے دم تک ہے یہ دنیا سے رخصت ہوئے پھر کچھ نہیں " اس سے اگر ان کی غرض یہ تھی کہ موت آنا نبوت کے منافی ہے تو اس کا جواب دیا۔ (وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ) 21 ۔ الانبیآء :34) یعنی انبیاء ومرسلین میں سے کون ایسا ہے جس پر کبھی موت طاری نہ ہو ہمیشہ زندہ رہے۔ اور اگر محض آپ کی موت کے تصور سے اپنا دل ٹھنڈا کرنا ہی مقصود تھا تو اس کا جواب (اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :34) میں دے دیا۔ یعنی خوشی کا ہے کی ؟ کیا آپ کا انتقال ہوجائے تو تم کبھی نہیں مرو گے قیامت کے بوریے سمیٹو گے ؟ جب تم کو بھی آگے پیچھے مرنا ہے تو پیغمبر کی وفات پر خوش ہونے کا کیا موقع ہے۔ اس راستہ سے تو سب کو گزرنا ہے کون ہے جس کو کبھی موت کا مزہ چکھنا نہیں پڑے گا گویا توحید اور دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد اس آیت میں مسئلہ نبوت کی طرف روئے سخن پھیر دیا گیا۔ 2 یعنی دنیا میں سختی، نرمی، تندرستی، بیماری، تنگی، فراخی اور مصیبت و عیش وغیرہ مختلف احوال بھیج کر تم کو جانچا جاتا ہے تاکہ کھرا کھوٹا الگ ہوجائے اور اعلانیہ ظاہر ہوجائے کہ کون سختی پر صبر اور نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور کتنے لوگ ہیں جو مایوسی یا شکوہ شکایت اور ناشکری کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 3 جہاں تمہارے صبرو شکر اور ہر نیک و بدعمل کا پھل دیا جائے گا۔
Top