Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو عاجزی کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور جب ان سے جہالت والے بات کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا سلام ہے،
عباد الرحمن کی صفات اور ان کے اخلاق و اعمال ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کی صفات بیان فرمائی ہیں اور انہیں عباد الرحمن کا معزز لقب دیا ہے ان حضرات کی جو چند صفات ذکر فرمائی ہیں ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ انہیں رحمن کا بندہ بتایا یہ بہت بڑا وصف ہے اور بہت بڑا لقب ہے یوں تکوینی طور پر سب ہی رحمن کے بندے ہیں لیکن اپنے اعتقاد سے اور اختیار سے اور اخلاص سے جس نے اپنی ذات کو سچے اعتقاد اور اخلاق کے ساتھ رحمن جل مجدہ کی عبادت میں لگا دیا اور رحمن جل مجدہ نے اس کے بارے میں یہ فرما دیا کہ یہ ہمارا بندہ ہے اس سے بڑھ کر بندہ کا کوئی اعزاز نہیں یہ بندے کا سب سے بڑا معزز لقب ہے اللہ تعالیٰ نے معراج کا تذکرہ شروع فرماتے ہوئے (سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ ) فرمایا ہے یہ شان عبدیت ہی تو بندہ کو اللہ تعالیٰ کا مقرب بناتی ہے اور آخرت میں بلند درجات نصیب ہونے کا ذریعہ ہے۔ دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں یعنی غرور اور تکبر کے ساتھ اکڑتے مکڑتے ہوئے نہیں چلتے سورة الاسراء میں فرمایا ہے (وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) (اور زمین میں اکڑتا ہوا مت چل بیشک تو زمین کو نہیں پھاڑ سکتا اور پہاڑوں کی لمبائی کو نہیں پہنچ سکتا) جب کسی شخص میں تواضع کی شان ہوتی ہے اور تکبر کے مرض میں مبتلا نہیں ہوتا تو وہ اپنی رفتار میں بھی عاجزی اختیار کرتا ہے۔ تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو ان سے الجھتے نہیں نہ انہیں جواب دیتے ہیں اور نہ ان سے جھگڑا کرتے ہیں اس بات کو یہاں سورة فرقان میں دو جگہ بیان فرمایا ہے پہلے تو یوں فرمایا (وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَمًا) (کہ جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ بھیا ہمارا سلام ہے) یہ سلام وہ نہیں ہے جو ملاقات کے لیے کیا جاتا ہے بلکہ جان چھڑانے کے لیے یہ لفظ کہہ کر چلے جاتے ہیں اسی کو سورة قصص میں فرمایا (وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ ) دوسری جگہ اسی رکوع میں فرمایا (وَاِِذَا مَرُّوا باللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا) (اور جب یہ لوگ بےہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں) بات یہ ہے کہ شریر اور کمینہ مزاج لوگ شریفوں کو تکلیف دینے پر تلے رہتے ہیں زبان سے تکلیف دینا، ان کی شان میں برے کلمات کہنا، طعنے دینا، اشاروں اور کنایوں سے ان کی برائی کرنا اس سے نہیں چوکتے۔ یہ لوگ بیہودہ کاموں میں لگے رہتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ان کے پاس سے گزرتے ہیں تو ان کی طرف دیکھتے ہی نہیں شرافت کے ساتھ آنکھیں نیچی کر کے گزر جاتے ہیں۔ اور اگر کسی نے چھیڑ ہی دیا تو یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ہمارا سلام ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے جواب دیا تو ان منہ پھٹ لوگوں کے درمیان آبرو محفوظ نہ رہے گی۔ رحمن کے بندوں کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اس طرح رات گزارتے ہیں کہ اپنے رب کی عبادت میں لگے رہتے ہیں کبھی سجدے میں ہیں کبھی قیام میں، ان کا ذوق عبادت انہیں زیادہ آرام نہیں کرنے دیتا سورة الذاریات میں فرمایا (اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ آخِذِیْنَ مَا آتَاھُمْ رَبُّہُمْ اِِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) (بلاشبہ متقی لوگ باغوں میں اور چشموں میں ہوں گے۔ ان کے رب نے انہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے لینے والے ہوں گے بلاشبہ وہ اس سے پہلے اچھے کام کرنے والے تھے یہ لوگ رات کو کم سوتے تھے اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے) ۔ عباد الرحمن کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے رہتے ہیں وہ یوں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم سے دوزخ کے عذاب کو ہٹائے رکھنا کیونکہ اس کا عذاب بالکل تباہ کرنے والا ہے یہ محاورہ کا ترجمہ ہے غَرَامًا الزوم کے معنی میں آتا ہے اور جب عذاب کسی کو لازم ہوگا تو وہ پوری طرح تباہ ہوگا اس کے لیے چھٹکارا کا کوئی راستہ نہیں اس سے اہل کفر کا عذاب مراد ہے ساتھ ہی فرمایا (اِِنَّہَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا) (بلا شبہ دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بری جگہ ہے) اللہ تعالیٰ اس بری جگہ سے محفوظ فرمائے یہ مومنین مخلصین عابدین قانتین کا طریقہ ہے کہ وہ عبادت بھی خوب کرتے ہیں اور ساتھ ہی ڈرتے بھی ہیں اور عذاب سے بچنے کی دعائیں بھی کرتے رہتے ہیں سورة المومنون میں فرمایا ہے (وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَ ) (اور وہ جو کچھ دیتے ہیں ان کے دل اس سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں) یعنی انہیں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ ہم نے جو کچھ دیا ہے وہ قبول ہوتا ہے یا نہیں نیک عمل کر کے بےفکر ہوجانا مومن کی شان نہیں مومن عمل بھی کرتا ہے اور ڈرتا بھی رہتا ہے کہ دیکھو میرے اعمال کو درجہ قبولیت نصیب ہوتا ہے یا نہیں ؟۔ چھٹی صفت یہ بیان فرمائی کہ جب رحمن کے بندے خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ کرنے میں کنجوسی اختیار کرتے ہیں بلکہ درمیانی راہ چلتے ہیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ درمیانی راہ چلنے کو قواماً فرمایا ہے کیونکہ اس میں دونوں جانب استقامت رہتی ہے کان کلا منھما یقاوم الاخر یہ میانہ روی شرعاً محمود ہے گناہوں میں تو مال خرچ کرنا جائز ہی نہیں حلال کاموں میں بھی میانہ روی اختیار کرے یہ میانہ روی مالی امور پر قابو پانے کا کامیاب ذریعہ ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اَلْاِقْتِصَادُ فِی النَّفْقَۃِ نصفُ الْمَعِیْشَۃِ کہ خرچہ میں میانہ روی اختیار کرنے میں معیشت کا آدھا انتظام ہے یعنی کمانا اور محنت کرنا اس میں معیشت کا آدھا انتظام ہے اور آدھا انتظام میانہ روی سے خرچ کرنے میں ہے اپنی ذات پر اور اپنی آل اولاد پر والدین و اقرباء پر خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرے ہاں جن کا توکل بہت بڑھا ہوا ہے اور نیکیوں میں بیک وقت پورا یا آدھا مال خرچ کرنے میں ان کی اپنی ذات کو بھی تکلیف محسوس نہ ہو اور نفقات مفروضہ اور واجبہ کا کسی طرح حلال انتظام ہوسکتا ہو تو ایسے حضرات اللہ کی راہ میں پورا مال بھی خرچ کرسکتے ہیں جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پورا مال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کردیا تھا جب آپ نے ان سے پوچھا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے تو انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔ یعنی ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خوشنودی ہی کافی ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ص 556) عباد الرحمن کی ساتویں صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے یعنی وہ مشرک نہیں ہیں توحید خالص اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اور آٹھویں صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ کسی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ہاں اگر قتل بالحق ہے شریعت کے اصول کے مطابق ہے مثلاً اگر کسی کو قصاص میں قتل کیا جائے یا کسی زانی کو رجم کرنا پڑے تو اس کی وجہ سے قتل کردیتے ہیں۔ نویں صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ زنا نہیں کرتے اس کے بعد فرمایا (وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا) (اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو وہ بڑی سزا سے ملاقات کرے گا) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اثاماً کی یہ تفسیر حضرت قتادہ اور ابن زید سے مروی ہے حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر جزا سے کی ہے اور ابو مسلم کا قول ہے کہ اثاماً گناہ کے معنی میں ہے اور مضاف محذوف ہے یعنی یلق جزاء اثام اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اثام جہنم کے اسماء میں سے ہے (یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) (اس کے لیے قیامت کے دن دہرا عذاب بڑھتا چلا جائے گا) یعنی عذاب پر عذاب بڑھتا رہے گا کما فی ایۃ اخری (زِدْنَاھُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ ) مزید فرمایا (وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا) (اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہے گا ذلیل کیا ہوا) یعنی عذاب بھی دائمی ہوگا اور اس کے ساتھ ذلیل بھی ہوگا اس عذاب سے کافروں کا عذاب مراد ہے کیونکہ انہیں کو دائمی عذاب ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ سب سے بڑا گناہ اللہ کے نزدیک کون سا ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا یہ کہ تو کسی کو اللہ کے برابر تجویز کرے حالانکہ اللہ نے تجھے پیدا کیا۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں (اہل عرب تنگ دستی کے ڈر سے اولاد کو قتل کردیتے تھے) سائل نے سوال کیا اس کے بعد کونسا گناہ سب سے بڑا ہے آپ نے فرمایا یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے (زنا تو یوں بھی گناہ کبیرہ ہے لیکن پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے سے اور زیادہ گناہ گاری بڑھ جاتی ہے) اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت کریمہ (وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ (رواہ البخاری ص 701)
Top