Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 3
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
لَعَلَّكَ : شاید تم بَاخِعٌ : ہلاک کرلوگے نَّفْسَكَ : اپنے تئیں اَلَّا يَكُوْنُوْا : کہ وہ نہیں مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لاتے
کیا ایسا ہونے کو ہے کہ آپ اپنی جان کو اس وجہ سے ہلاک کردیں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
رسول اللہ ﷺ کو تسلی اور مکذبین کے لیے وعید علامہ بغوی معالم التنزیل ص 381 ج 3 میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی جب اہل مکہ نے تکذیب کی تو یہ آپ کو شاق گزرا چونکہ آپ کو اس بات کی حرص تھی کہ وہ لوگ ایمان لے آئیں اس لیے ان کی تکذیب سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی۔ آپ کو تسلی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آیت (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ ) نازل فرمائی (جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنا کام کرتے رہیں ان کے غم میں آپ کو جان ہلاک کرنا نہیں ہے) ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ہم اگر چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل فرما دیں جسے یہ تسلیم کرلیں اور اس کی وجہ سے ان کی گردنیں جھک جائیں اور اس طرح سے جبراً و قہراً ایمان لے آئیں لیکن ایسا کرنا نہیں ہے کیونکہ لوگوں کو مجبور نہیں کیا گیا بلکہ اختیار دیا گیا ہے تاکہ اپنے اختیار سے ایمان قبول کریں۔ اس کے بعد مخاطبین کی عام حالت بیان فرمائی کہ جب بھی رحمن کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو قبول کرنے کے بجائے اعراض کرتے ہیں ان کے جھٹلانے اور آیات کا مذاق بنانے کا نتیجہ عنقریب ان کے سامنے آجائے گا یعنی تکذیب اور استہزاء کی سزا پائیں گے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ آنے والے عذابوں کو انباء سے تعبیر فرمایا جو نباء کی جمع ہے نباء خبر کے معنی میں آتا ہے چونکہ قرآن عظیم نے پہلے سے تکذیب و استہزاء کے مواقب کی خبر دی ہے اس لیے (اَنْبَآءُ مَا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزءُوْن) فرمایا یعنی تکذیب پر عذاب آنے کی جو خبریں دی گئی تھیں ان کا ظہور ہوجائے گا۔
Top