Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 3
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
لَعَلَّكَ : شاید تم بَاخِعٌ : ہلاک کرلوگے نَّفْسَكَ : اپنے تئیں اَلَّا يَكُوْنُوْا : کہ وہ نہیں مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لاتے
شاید اس وجہ سے کہ وہ ایمان نہیں لاتے آپ اپنے کو ہلاک ہی (نہ) کر لیں
آپ ﷺ اس فکر میں مبتلا نہ ہوں کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے : 3۔ بخ نفسہ ، کفتح ۔ یبخعھا ، بخھا وبخوعا : قتلھا غیظا اوغمافھو باخع ۔ باخع کا لفظ قرآن کریم میں دوبارہ استعمال ہوا ہے ایک بار اس جگہ اور ایک بار اس سے پہلے سورة الکہف کی آیت 6 میں اور دونوں جگہ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ اپنے آپ کو ہلاک کیوں کر رہے ہیں یعنی آپ ﷺ اس غم میں کیوں گھل رہے ہیں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ، یہ بات اس وقت آپ ﷺ کو کہی گئی جب آپ ﷺ شبانہ روز ان کوششوں میں مصروف تھے کہ قریش کی سمجھ میں وہ بات آجائے جس کی طرف میں ان کو دعوت دے رہا ہوں اور وہ لوگ تھے کہ روز بروز اپنی ضد اور عناد میں بڑھتے ہی جا رہے تھے گویا آپ ﷺ ان سے جتنی محبت کرتے تھے وہ آپ ﷺ سے اس سے دس گنا زیادہ نفرت رکھتے تھے جس کے نتیجہ میں نبی اعظم وآخر ﷺ کو جو رنج اور قلق ہوتا ہوگا اس کا اندازہ آپ اور میں نہیں لگا سکتے ، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ 6 ان کفار کے غم میں کیوں نڈھال ہوئے جا رہے ہیں آخر اتنا دل گیر اور غم زدہ ہونے کیا ضرورت ہے ۔ آپ ﷺ اپنا فرض منصبی خوب نباہ رہے ہیں اگر وہ تسلیم کرتے ہوئے آپ کی تعلیمات کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ان کا اپنا فائدہ ہے اور اگر وہ اپنی رعونت اور نخوت میں رہتے ہوئے عمل نہیں کرتے تو نقصان بھی ان کا اپنا ہے باوجود آپ ﷺ کے بتانے کے اگر وہ آپ ﷺ کی دعوت قبول نہیں کرتے تو یقینا اس کے انجام کو وہ پہنچ جائیں گے آپ ﷺ اس غم میں گھلنا اور مرنا چھوڑ دیں اس تسلی کا مقصد صرف یہ ہے کہ رسول یہ نہ سمجھے کہ شاید میری کسی کوتاہی کے باعث وہ نہیں مان رہے ، تفصیل کے لئے سورة الکہف کی آیت 6 کی تفسیر کو دیکھ لیں کہ وہاں مزید وضاحت ملے گی ۔
Top