Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 90
وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ١ؕ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَمَنْ : اور جو جَآءَ : آیا بِالسَّيِّئَةِ : برائی کے ساتھ فَكُبَّتْ : اوندھے ڈالے جائیں گے وُجُوْهُهُمْ : ان کے منہ فِي النَّارِ : آگ میں هَلْ : کیا نہیں تُجْزَوْنَ : بدلہ دئیے جاؤگے تم اِلَّا : مگر۔ صرف مَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو وہ لوگ اوندھے منہ گر کے دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے۔
(وَ مَنْ جَآء بالسَّیِّءَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ ) ( اور جو شخص سیۂ لے کر آئے گا سو وہ لوگ ہوں گے جنہیں چہروں کے بل اوندھا کر کے آگ میں ڈال دیا جائے گا) جیسے جملہ سابقہ میں لفظ الحسنہ سے ایمان مراد لیا گیا ہے اسی طرح بعض مفسرین نے اس جملہ میں سیۂ سے کفر اور شرک مراد لیا، اور مطلب یہ ہے کہ جو شخص قیامت کے دن کفر اور شرک لے کر آئے گا اسے اوندھے منہ کر کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ سورة الشعراء میں فرمایا (فَکُبْکِبُوْا فِیْھَا ھُمْ وَ الْغَاوُوْنَ وُ جُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَ ) (لوگ اور ابلیس کا لشکر سب کے سب اوندھے منہ کر کے دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے) اور اگر سیۂ کو عام لیا جائے تو اس کے عموم میں گناہ گار اہل ایمان بھی آجاتے ہیں جو تطھیر اور تمحیص کے لیے دوزخ میں جائیں گے لیکن ان کا عذاب کافروں کی نسبت بہت زیادہ خفیف ہوگا اور کافر ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور اہل ایمان گناہوں کی سزا پانے کے بعد دوزخ سے نکا لے جائیں گے۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ گناہ گار اہل ایمان بھی اوندھے منہ کرکے دوزخ میں ڈالے جائیں، کیونکہ بہت مرتبہ کسی جماعت کے بارے میں کسی حکم کلی کا حکم لگایا جاتا ہے لیکن بعض کے لیے ایک نوع ہوتی ہے اور بعض کے لیے دوسری نوع۔ (ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) (تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے) یعنی آخرت میں دوزخیوں سے یہ بات کہہ دی جائے گی کہ ہر شخص کو اپنے عقیدہ اور عمل کی سزا ملے گی کسی پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔
Top