Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 4
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ١ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓئِیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ١ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ١ؕ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنائے اللّٰهُ : اللہ لِرَجُلٍ : کسی آدمی کے لیے مِّنْ قَلْبَيْنِ : دو دل فِيْ جَوْفِهٖ ۚ : اس کے سینے میں وَمَا جَعَلَ : اور نہیں بنایا اَزْوَاجَكُمُ : تمہاری بیویاں الّٰٓـئِْ : وہ جنہیں تُظٰهِرُوْنَ : تم ماں کہہ بیٹھتے ہو مِنْهُنَّ : ان سے انہیں اُمَّهٰتِكُمْ ۚ : تمہاری مائیں وَمَا جَعَلَ : اور نہیں بنایا اَدْعِيَآءَكُمْ : تمہارے منہ بولے بیٹے اَبْنَآءَكُمْ ۭ : تمہارے بیٹے ذٰلِكُمْ : یہ تم قَوْلُكُمْ : تمہارا کہنا بِاَفْوَاهِكُمْ ۭ : اپنے منہ (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے الْحَقَّ : حق وَهُوَ : اور وہ يَهْدِي : ہدایت دیتا ہے السَّبِيْلَ : راستہ
اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے، اور تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو تمہاری ماں نہیں بنایا، اور جو تمہارے منہ بولے بیٹے ہیں ان کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا، یہ تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے، اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور راستہ دکھاتا ہے،
منہ بولے بیٹے تمہارے حقیقی بیٹے نہیں ہیں ان کی نسبت ان کے باپوں کی طرف کرو تفسیر قرطبی جلد نمبر 14 ص 116 میں لکھا ہے کہ جمیل بن معمر فہری ایک آدمی تھا اس کی ذکاوت اور قوت حافظہ مشہور تھی، قریش اس کے بڑے معتقد تھے اور کہتے تھے کہ اس کے سینہ میں دو دل ہیں اور وہ خود بھی یوں کہتا تھا کہ میرے دو دل ہیں ان دونوں کے ذریعہ جو کچھ سمجھتا ہوں وہ محمد ﷺ کی عقل سے زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی باتوں کی تردید فرمائی اور فرمایا، (مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ ) (کہ اللہ نے کسی بندہ کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے) جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے اسے اپنے دعوے کی سزا ضرور ملتی ہے اور اس کے دعوے کے خلاف ظاہر ہوجاتا ہے چناچہ اس شخص کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو یہ کہتا تھا کہ میرے اندر دو دل ہیں۔ قصہ یہ ہوا کہ یہ شخص بھی جنگ بدر میں شریک تھا جب مشرکین کو شکست ہوگئی تو ابو سفیان نے اسے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا وہ تو شکست کھاگئے، ابو سفیان نے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ تیری ایک چپل تیرے ایک ہاتھ میں ہے اور دوسری تیرے پاؤں میں ہے، کہنے لگا اچھا یہ بات ہے ! میں تو یہی سمجھ رہا ہوں کہ وہ دونوں میرے پاؤں میں ہیں، اس وقت لوگوں پر ظاہر ہوگیا کہ اگر اس کے دو دل ہوتے تو اپنی چپل کو ہاتھ میں لٹکائے ہوئے یہ نہ سمجھتا کہ وہ میرے پاؤں میں ہے۔ ظہار کیا ہے اہل عرب میں ظہار کا طریقہ جاری تھا یعنی مرد اپنی بیوی سے یوں کہہ دیتا تھا کہ : (اَنْتِ کَظَھْرِ اُمِّیْ ) (تو میرے لیے ایسی ہے جیسے میری ماں کی کمر ہے) ایسا کہہ دینے سے اس عورت کو اپنے اوپر ہمیشہ کے لیے حرام سمجھ لیتے تھے۔ اسلام میں اگر کوئی شخص ایسا کہہ دے تو اس کے لیے کفارہ مقرر کردیا گیا ہے جو سورة المجادلہ کے پہلے رکوع میں مذکور ہے، اہل عرب جو اپنے اوپر عورت کو ہمیشہ کے لیے حرام سمجھ لیتے تھے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : (وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الِّآئْ تُظٰھِرُوْنَ مِنْھُنَّ اُمَّھٰتِکُمْ ) (اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو تمہاری حقیقی اور واقعی ماں نہیں بنا دیا) لہٰذا اگر کوئی شخص ظہار کرلے تو اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام نہ ہوجائے گی مقررہ کفارہ دے دے تو پھر میاں بیوی کی طرح رہیں۔ بیٹا بنا لینا اہل عرب کا یہ بھی طریقہ تھا کہ جب کسی لڑکے کو منہ بولا بیٹا بنا لیتے تھے (جو اپنا بیٹا نہیں دوسرے شخص کا بیٹا ہوتا تھا جسے ہمارے محاورہ میں لے پالک کہتے ہیں) تو اس لڑکے کو بیٹا بنانے والا شخص اپنی ہی طرف منسوب کرتا تھا یعنی حقیقی بیٹے کی طرح سے اسے مانتا اور سمجھتا تھا اور اس سے بیٹے جیسا معاملہ کرتا تھا اس کو میراث بھی دیتا تھا اور اس کی موت یا طلاق کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرنے کو بھی حرام سمجھتا تھا اور عام طور سے دوسرے لوگ بھی اس لڑکے کو اسی شخص کی طرف منسوب کرتے تھے جس نے بیٹا بنایا ہے اور ابن فلاں کہہ کر پکارتے تھے، ان کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : (وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَ کُمْ اَبْنَآءَ کُمْ ) (کہ اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا اصلی اور واقعی بیٹا قرار نہیں دیا) تم جو انہیں بیٹا بنانے والے کا بیٹا سمجھتے ہو اور اس پر حقیقی بیٹے کا قانون جاری کرتے ہو یہ غلط ہے۔ (ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ ) (یہ تمہاری اپنی منہ بولی باتیں ہیں، اللہ کی شریعت کے خلاف ہیں) (وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ ) (اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور حق راہ بتاتا ہے) اسی میں سے یہ بھی ہے کہ منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا نہ سمجھا جائے۔ (اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآءِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ) (تم انہیں ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارا کرو یہ اللہ کے نزدیک انصاف کی چیز ہے) (فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَ ھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ) (سو اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو مثلاً کسی لڑکے کو پال لیا جس کا باپ معلوم نہ تھا مثلاً کسی لقیط (پڑا ہوا بچہ) کو اٹھالیا۔ اس کے باپ کا علم نہیں بیٹا بنانے والے کو ہے نہ بستی والوں کو تو اسے یا اخی (میرا بھائی) کہہ کر بلاؤ کیونکہ وہ تمہارا دینی بھائی ہے، یا دوست کہہ کر بلاؤ مَوَالِیْ مَوْلٰیکی جمع ہے جس کے متعدد معانی ہیں، ان میں سے ایک ابن العم یعنی چچا کے بیٹے کے معنی میں بھی آتا ہے، اس لیے صاحب جلالین نے موالیْکُمْ کا ترجمہ بنو عمّکم کیا ہے یعنی چچازاد کہہ کر پکار لو۔ (وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ ) (اور جو کچھ تم سے خطا ہوجائے اس کے بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں) تم سے بھول چوک ہوجائے اور منہ سے بیٹا بنانے والے کی طرف نسبت کر بیٹھو تو اس پر گناہ نہیں ہے۔ (وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ ) (لیکن اس حکم کی خلاف ورزی قلبی ارادہ کے ساتھ قصداً ہوجائے تو یہ مواخذہ کی بات ہے) (وَکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) (اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے) گناہ ہوجائے تو مغفرت طلب کرو اور توبہ کرو۔ ضروری مسائل مسئلہ : اگر کسی لڑکے یا لڑکی کو کوئی شخص لے کر پال لے اور بیٹا بیٹی کی طرح اس کی پرورش کرے جیسا کہ بعض بےاولاد ایسا کرلیتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے لیکن حقیقی ماں باپ، بہن اور دیگر رشتہ داروں سے اس کا تعلق حسب سابق باقی رہنے دیں، شرعی اصول کے مطابق آنا جانا ملنا جلنا جاری رہے قطع رحمی نہ کی جائے۔ مسئلہ : قرآن مجید میں بتادیا کہ مُتَبَنّٰی یعنی منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوجاتا لہٰذا اس کو پالنے والے مرد یا عورت کی میراث نہیں ملے گی، بعض مرتبہ کسی کو بیٹا بیٹی بنا لینے کے بعد اپنی اولاد پیدا ہوجاتی ہے اور اولاد کے علاوہ دیگر شرعی ورثاء بھی ہوتے ہیں پس سمجھ لیا جائے کہ میراث اسی اصل ذاتی اولاد اور دیگر شرعی ورثاء کو ملے گی منہ بولے بیٹے بیٹی کا اس میں کوئی حصہ نہیں، البتہ منہ بولے بیٹے کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے جو تہائی مال سے زیادہ نہ ہو اور اس وصیت کرنے میں اصل وارثوں کو محروم کرنے یا ان کا حصہ کم کرنے کی نیت نہ ہو۔ مسئلہ : منہ بولا بیٹا بیٹی چونکہ اپنے حقیقی بیٹا بیٹی نہیں بن جاتے اس لیے اگر وہ محرم نہیں ہیں تو ان سے وہی غیر محرم والا معاملہ کیا جائے گا اور سمجھدار ہوجانے پر پردہ کرنے کے احکام نافذ ہوں گے، ہاں اگر کسی مرد نے بھائی کی لڑکی لے کر پال لی تو اس سے پردہ نہ ہوگا یا اگر کسی عورت نے بہن کا لڑکا لے کر پال لیا تو اس سے بھی پردہ نہ ہوگا کیونکہ دونوں صورتوں میں محرم ہونے کا رشتہ سامنے آگیا، ہاں جس کا رشتہ محرمیت نہ ہوگا اس سے پردہ ہوگا، مثلاً کسی عورت نے اپنے بھائی یا بہن کی لڑکی لے کر پال لی جس کا عورت کے شوہر سے کوئی رشتہ محرمیت نہیں ہے تو اس مرد کے حق میں وہ غیر ہوگی اس سے پردہ ہوگا۔ مسئلہ : کسی نے کسی کو منہ بولا بیٹا بنایا اور اس بیٹا بنانے والے کی لڑکی بھی ہے تو اس لڑکے اور لڑکی کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے بشرطیکہ حرمت نکاح کا کوئی دوسرا سبب نہ ہو۔ مسئلہ : اگر کسی نے کسی نامحرم کو اپنا بیٹا بنایا اور اس لڑکے کی کسی لڑکی سے شادی کردی پھر یہ لڑکا مرگیا یا طلاق دے دی تو اس بیٹا بنانے والے شخص سے مرنے والے کی بیوی کا نکاح ہوسکتا ہے بشرطیکہ کوئی دوسری وجہ حرمت نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو اپنا بیٹا بنالیا تھا پھر بڑا ہوجانے پر اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب بنت جحش ؓ سے ان کا نکاح کردیا تھا، جب انہوں نے طلاق دے دی تو آپ ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح کرلیا، اس پر عرب کے جاہلوں نے اعتراض کیا کہ دیکھو بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، (جس کا تذکرہ اس سورت کے پانچویں رکوع میں آ رہا ہے، انشاء اللہ) ان لوگوں کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے (وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَ کُمْ اَبْنَآءَ کُمْ ) فرما دیا (کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنا دیا تھا۔ ) حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد ﷺ کہا کرتے تھے۔ جب آیت (وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَ کُمْ اَبْنَآءَ کُمْ ) نازل ہوئی تو ہم نے ایسا کہنا چھوڑ دیا۔ مسئلہ : دوسروں کے بچوں کو شفقت اور پیار میں جو بیٹا کہہ کر بلا لیتے ہیں جبکہ ان کا باپ معروف و مشہور ہو تو یہ جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں ہے۔ مسئلہ : جس طرح کسی کے منہ بولے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانے والے کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ بنائے یا بتائے یا کاغذات میں لکھوائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت کی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔ (رواہ البخاری عن سعد بن ابی وقاص) آج کل جو لوگوں میں اپنا نسب بدلنے، جھوٹا سید بننے یا اپنی قوم و قبیلہ کے علاوہ کسی دوسرے قبیلہ کی طرف منسوب ہونے کا رواج ہوگیا ہے یہ حرام ہے ایسا کرنے والے حدیث مذکور کی وعید کے مستحق ہیں۔ مسئلہ : اگر کسی عورت نے زنا کیا اور اس سے حمل رہ گیا پھر جلدی سے کسی سے نکاح کرلیا اور اس طرح سے اس شوہر کا بچہ ظاہر کردیا جس سے نکاح کیا ہے تو یہ بھی حرام ہے، اور اگر کسی شخص کا واقعی بچہ ہے اور وہ اس کا انکار کرے تو یہ بھی حرام ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی عورت کسی قوم میں کسی ایسے بچے کو شامل کردے جو ان میں سے نہیں ہے تو اللہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اللہ اسے ہرگز اپنی جنت میں داخل نہ فرمائے گا، اور جس کسی مرد نے اپنے بچے کا انکار کردیا حالانکہ وہ اس کی طرف دیکھ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اپنی رحمت سے دور فرما دے گا اور اسے (قیامت کے دن) اولین و آخرین کے سامنے رسوا کرے گا۔ (رواہ ابو داؤد)
Top