Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 4
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ١ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓئِیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ١ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ١ؕ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنائے اللّٰهُ : اللہ لِرَجُلٍ : کسی آدمی کے لیے مِّنْ قَلْبَيْنِ : دو دل فِيْ جَوْفِهٖ ۚ : اس کے سینے میں وَمَا جَعَلَ : اور نہیں بنایا اَزْوَاجَكُمُ : تمہاری بیویاں الّٰٓـئِْ : وہ جنہیں تُظٰهِرُوْنَ : تم ماں کہہ بیٹھتے ہو مِنْهُنَّ : ان سے انہیں اُمَّهٰتِكُمْ ۚ : تمہاری مائیں وَمَا جَعَلَ : اور نہیں بنایا اَدْعِيَآءَكُمْ : تمہارے منہ بولے بیٹے اَبْنَآءَكُمْ ۭ : تمہارے بیٹے ذٰلِكُمْ : یہ تم قَوْلُكُمْ : تمہارا کہنا بِاَفْوَاهِكُمْ ۭ : اپنے منہ (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے الْحَقَّ : حق وَهُوَ : اور وہ يَهْدِي : ہدایت دیتا ہے السَّبِيْلَ : راستہ
نہیں ٹھہرائے اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے لیے دو دل اس کے سینے میں ، اور نہیں بنایا اس نے تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو۔ تمہاری مائیں اور نہیں بنایا اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے۔ یہ بات ہے تمہارے اپنے مومنوں سے۔ اور اللہ تعالیٰ حق بات کہتا ا ہے اور وہ رہنمائی کرتا ہے راستے کی
ربط آیات : سورۃ کی ابتدائی آیات میں حضور ﷺ کو خطاب کیا گیا۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیں بلکہ وحی الٰہی کا اتباع کریں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے پروگرام کو جاری رکھیں۔ کفار ، مشرکین اور منافقین کے غلط پراپیگنڈا کا شکار نہ ہوں اور زمانہ جاہلیت کی غلط باتوں پر دھیان نہ دیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی تین باتوں کا ذکر کیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھیں اور اپنے نبی کو ان کے مقابلے میں صحیح باتوں کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ (حاشیہ : 1 ؎ ابو سعود ص 303 ج 4 و معالم التنزیل ص 161 ج 3 و خازن ص 922 ج 5 ، 2 ؎ ابن کثیر ص 664 ج 3 و طبری ص 811 ج 12 فیاض) دو دلوں کی نفی : زمانہ جاہلیت 1 ؎ میں یہ ایک عام تاثر پایا جاتا تھا کہ اگر کوئی شخص غیر معمولی طور پر ذہین ، سمجھدار اور معاملہ فہم ہوتا تو اس کے متعلق کہا جاتا کہ اس شخص کے سینے میں دو دل ہیں۔ ترمذی شریف کی روایت 2 ؎ میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نماز میں بھول گئے تو بعض منافق کہنے لگے کہ آپ کے دو دل ہیں۔ ان میں سے ایک دل کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دوسرے دل کے ساتھ مخلص مومنوں کی طرف۔ اللہ نے اس بات کی تردید فرمائی ہے کہ کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے۔ مشرکین مکہ میں سے ایک ذہین آدمی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ اس آیت کریمہ سے اس بات کی بھی نفی ہوگئی۔ بہرحال ارشاد ہوتا ہے ماجعل اللہ لوجل من قلبین فی جو فہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ، دل ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ بعض جسمانی اعضاء زائد ہو سکتے ہیں جیسے کسی شخص کے ہاتھ پائوں کی انگلیاں پانچ کی بجائے چھ ہوں۔ پچھلے دنوں اخبارات میں ایک عورت کی فوٹو آئی تھی کی تیسری آنکھ سر کی پچھلی جانب موجود تھی تو ایسا تو مشاہدہ میں آتا رہتا ہے مگر کسی شخص کے جسم میں دو دل کبھی نہیں پائے گئے۔ یہ مسئلہ احکام شریعت سے تو تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق علم تشریح الاعضو یعنی اناٹومی (Anatomy) سے ہے کہ انسانی جسم میں کون کون سے اعضاء کتنی تعداد میں اور کس کس جگہ پر موجود ہیں۔ انسان کا دل عام طور پر سینے کے بائیں طرف ہوتا ہے مگر بعض شاذونادرکیسوں میں اس کا دائیں جانب ہونا بھی پایا گیا ہے۔ صوبہ مدارس میں عمر آباد کے مقام پر ا ہل حق کا دینی مدرسہ جامعہ اسلامیہ ہے آج سے تقریباً نصف صدی پہلے اس مدرسہ کے مہتمم کا کا ابراہیم کے متعلق مشہور ہے کہ اس کا دل دائیں طرف تھا۔ یورپی ممالک میں بھی لاکھوں کروڑوں میں کوئی اکا دکا شخص ہی ہوگا جس کا دل دائیں طرف ہو تاہم یہ امکان تو ہے مگر کسی شخص کے سینے میں دو دل کبھی بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے۔ اس موقع پر مفسرین 1 ؎ کرام ایک اور نقطہ بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ تو مشہور مقولہ ہے لایتوجہ القلب فی ان واحد الیٰ ثبین یعنی کوئی دل بیک وقت دو امور کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔ مگر حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی 2 ؎ نے یہ اشکال پیش کیا ہے کہ بعض لوگ تسبیح بھی چلاتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ گفتگو بھی کرتے رہتے ہیں۔ (حاشیہ : 1 ؎، 2 ؎ بیان القرآن ص 53 ج 9 فیاض) اس طرح ان کے دل کی توجہ دل کی طرف اور باتوں کی طرف بیک وقت کیسے ہو سکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ ایک وقت میں یا ذکر ہوگا یا دیگر باتیں تو ایسا کرنا محض دھوکہ ہے۔ کوئی شخص ایک ہی وقت میں ذکر کے ساتھ ساتھ دنیاوی باتیں کرنے کی قدرت نہیں رکھتا جو شخص ایسا کرتا ہے وہ گفتگو میں تو مصروف ہوتا ہے۔ مگر ذکر سے خالی ہوتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ کسی شخص کے سینے میں اللہ نے دو دل نہیں بنائے۔ دل ایک ہی ہوتا ہے جو یا تو کفر کی طرف مائل ہوگا یا اطاعت کی طرف۔ اب دوسرا مسئلہ اللہ نے بیویوں سے ظہار کرنے کے متعلق بیان فرمایا ہے ظہار کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنی ماں کی پشت ، پیٹ ، یا ران یا کسی دیگر اعضائے مستورہ سے تشبیہہ دے جس کا دیکھنا بھی حرام ہے۔ یا وہ اپنی بیوی کو اپنی ماں ، بہن یا دیگر محرمات ابدیہ میں سے کسی کے برابر قرار دے۔ ایسا کہنا اگرچہ ناجائز اور سخت ناپسندیدہ ہے مگر اس سے بیوی قطعی طور پر حرام نہیں ہوجاتی بلکہ شریعت کا مقرر کردہ کفارہ ادا کر کے مرد اور عورت ازدواجی زندگی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ کفارہ کا مسئلہ سورة مجادلہ میں بیان کردیا گیا ہے۔ یعنی ظہار کرنے والا شخص ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ کے متواتر روزے رکھے یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے زمانہ جاہلیت میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظہار کا اعلان کردیتا تھا تو پھر وہ اس کے لئے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی تھی۔ اللہ نے اسی بات کی تردید فرمائی ہے وما جعل ازواجکم الئی تظھرون منھن امھتکم اللہ تعالیٰ نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں نہیں بنا دیا جن سے تم ظہار کرتے ہو یعنی ان کو اپنی ماں کی پشت کے ساتھ تشبیہ دے دیتے ہو۔ ظہار کا لفظ ظہر کے مادے سے ماخوذ ہے جس کا معنی پشت ہوتا ہے۔ یعنی اپنی بیوی کو اپنی ماں کی پشت کے ساتھ تشبیہہ دینا۔ دراصل پشت کے ساتھ تشبیہہ زیادہ مناسب معلوم نہیں ہوتی بلکہ پیپ کے ساتھ تشبیہ دینی چاہئے ، کیونکہ اعضائے تنا سلہ اور مستورہ کا تعلق پیٹ کے ساتھ ہوتا ہے ، مگر پشت چونکہ پیٹ کے لئے بطور ستون ہے ۔ لہٰذا ایسے معاملہ میں پیٹ کی بجائے پشت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ منہ بولے بیٹے کا مسئلہ : اس آیت کریمہ میں اللہ نے تیسرا مسئلہ منہ بولے بیٹے سے متعلق بیان کیا ہے ، زمانہ جاہلیت میں منہ بولے یا لے پالک بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا ہے ۔ جب کوئی شخص کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیتا تھا تو تھر وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بن جاتے ہیں تھے اور حقیقی بیٹے والے دکر مسائل بھی فرع ہوجاتے تھے ۔ مثلاً ۔۔۔۔ بیٹے کی بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہے تو منہ بولے بیٹے کی صورت میں بھی وہ اسے حرام ہی قرار دیتے ہیں۔ اللہ نے اس غلط مسئلہ کی بھی ترہ ید فرمانی ہے وما جعل اوعیاء کم ابنا ئکم اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بنایا تم جو انہیں حقیقی بیٹے سمجھ کر وہی احکام لاگو کرتے ہو ، یہ درست نہیں ہے ، ذالکم قوالکم بافواھکم یہ تو محض تمہارے مونہوں کی باتیں ہیں ، ان میں حقیقت نہیں ہے واللہ یقول الحق دراصل حق بات تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منہ بولے بیٹے حققی بیٹے نہیں ہوتے اور نہ ہی ان پر حقیقی بیٹوں والے شرعی احکام صادر ہوتے ہیں ۔ اللہ کی بات سچی ہے وھو یھدی السبیل اور وہی سیدھے راستے کی طرح راہنمائی کرتا ہے ۔ حضرت زید ؓ کا واقعہ : یہ مسئلہ دراصل آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید ؓ بن حارث کے سلسلے میں پیدا ہوا ۔ آپ کا نام اسی سورة میں آگے آرہا ہے ۔ حضور ﷺ کے حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ نکاح سے بھی پہلے کا واقعہ ہے کہ حضرت 1 ؎ خدیجہ ؓ نے اپنے بھتیجے حکیم ابن حزام ؓ کو کہا کہ وہ عکاظ کی منڈی میں جاکر 1 ؎ درمنشور ص 1 81 ج 5 ؎ (فیاض) ان کے لئے کوئی اچھا سا غلام خرید لائے جس سے روز مرہ ضروریات زندگی میں خدمت لے سکیں ، جب وہ منڈی میں گئے تو ان کی نظر حضرت زید ؓ پر جم گئی جو اس وقت چھوٹے بچے تھے اور بڑے ذہین معلوم ہوتے تھے ۔ حضرت زید ؓ حقیقت میں غلام نہیں تھے بلکہ بڑے وسیع قبیلے کلب کے چشم وچراغ تھے ۔ اتفاق سے یہ اپنے ماموں کے ہاں گئے ہوئے تھے کہ وہاں ڈاکہ پڑا تو ڈاکو باقی چیزوں کے ساتھ زید ؓ کو بھی لوٹ کرلے گئے اور غلام بنا لیا اور اس طرح آپ بحیثیت غلام عکاظ کی منڈی میں پہنچ گئے ۔ بہر حال حکیم ابن حزام ؓ نے حضرت زید ؓ کو خرید کر حضرت خدیجہ ؓ کی خدمت میں پیش کردیا ۔ پھر جب حضور ﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ ؓ سے ہوگیا تو آپ نے حضرت زید ؓ کو اپنے لئے طلب کرلیا جو حضرت خدیجہ ؓ نے بخوشی منظور کرلیا اور اس طرح حضرت زید ؓ آنحضرت ﷺ کی تحویل میں آکر آپ کی خدمت پر مامور ہوگئے ۔ جب حضرت زید بڑے ہوگئے تو آپ کو تجارت کے سلسلہ میں شام کے سفر پر جانے کا اتفاق ہوا ، وہاں ان کو ان کے والد حارث اور چچا نے پہچان لیا کہ یہ تو ہمارا بچھڑا ہوا بچہ ہے ، ان کو یہ بھی علم ہوگیا کہ آپ خاندان قریش میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ، چناچہ جب حضرت زید ؓ سفر سے واپس آگئے ۔ تو آپ کے والد اور چچا بھی مکہ پہنچے اور حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ ہمارا بچہ ہے ، کسی وجہ سے غلامی کے چکر میں پھنس گیا ہے ۔ آپ اسے چھوڑ دیں ، ہم اس کا تاون ادا کرنے کے لئے تیار ہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا ، کہ مجھے تاوان کی ضرورت نہیں ہے ، اگر زید ؓ جانا چاہتا ہے تو میری طرف سے کھلی اجازت ہے ۔ اس وقت تک حضور ﷺ منصب نبوت پر بھی فائز ہوچکے تھے اور حضرت زید ؓ آپ کے اخلاق کریمانہ سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ آپ غلاموں میں سب سے پہلے حضور پر ایمان لانے والے ہیں ۔ جب آپ کے والد اور چچا نے اپنے ساتھ چلنے کو کہا تو حضرت زید ؓ نے انکار کردیا اور کہا کہ اپنے اعز کے ہمراہ آزاد زندگی کو حضور ﷺ کی غلامی پر ترجیح دیتا ہوں ۔ وہ لوگ سخت مایوس ہوگئے ۔ اس دوران میں حضور ﷺ نے اعلان فرمادیا کہ میں نے زید ؓ کو آزاد کر کے اپنے منہ بولا بیٹا بنالیا ہے ۔ اب یہ میرا وارث ہوگا ۔ اور میں اس کا وارث ۔ اس پر زید ؓ کا باپ اور چچا خوش ہوگئے کہ زید ؓ اگر ہمارے ساتھ نہ بھی جائے تو اب وہ آزاد ہوگیا ہے۔ ۔۔۔۔ لمحہ بیوی سے نکاح کا مسئلہ : حضور ﷺ نے حضرت زید ؓ کا نکاح اپنی پھوپھی زاو بن حضرت زینت ؓ سے کروایا تھا مگر بوجوہ ان کا آپس میں نباہ نہ ہوسکا۔ حضرت زید ؓ نے حضرت زینت کو طلاق دے دی تو خود آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا ، مشرکین کے نزدیک منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح حلال نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے اس مسئلہ کو خوب اچھالا اور حضور ﷺ کو بدنام کر نیکی کوشش کی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو واضح کیا اور ان آیات کے ذریعے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے بنایا ۔ یہ تو تمہاری اپنی زبانوں کی بات ہے ۔ حق بات اللہ کی ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح بالکل حلال ہے ۔ کسی کو بیٹا کہہ کر پکارنا دو وجوہات سے ہو سکتا ہے ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ محض پیارمحبت اور شفقت کی بنا پر کسی کو بیٹا کہہ کر پکارا جائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ خود آنحضرت ﷺ حضرت انس ؓ کر بھی یبنی (اے بیٹے ) کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔ حضور ﷺ حضرت مغیرۃ ؓ اور ایک اور صحابی کو بھی اسی لقب سے پکارتے تھے ۔ یہ چیز محاورے کے لحاظ سے درست ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی کو یبنی بنا لیا جائے اور اسے روز مرہ کے معمولات میں شریک کیا جائے ۔ ایسی صورت میں بھی منہ بولا بیٹا نہ تو محرم بن جاتا ہے اور نہ ہی اسے حقوق وارثت حاصل ہوتے ہیں ۔ ہاں ! کوئی شخص اپنی زندگی میں سے پالک کے لئے اپنے تہائی مال تک کی وصیت کرسکتا ہے جس کا وہ حقدار ہوگا باقاعدہ وارث نہیں بنے گا ۔ حقیقی بات کی طرف سے نسبت : اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم بھی دی ہے ادعو ھم لا بائھم اپنے لے پالک بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو نہ کہ اس شخص کی طرف جس نے اسے بیٹا بنالیا ہے ۔ فرمایا ھو اقسط عند اللہ کے نزدیک یہ بات زیادہ انصاف والی ہے کہ تم ایسے لوگوں کی نسبت ان کے حقیقی باپوں کی طرف کرو ۔ صحابہ کرام ؓ بیان 1 ؎ کرتے ہیں کہ ان آیات کے نزول سے پہلے ہم حضرت زید ؓ کو زید ؓ ابن محمد کہہ کر پکارتے تھے ۔ اس کے بعد ہم زید ؓ ابن حارث کہنے لگے ، حضور کا یہ فرمان 2 ؎ بھی ہے من ادعی الی غیر ابیہ فقد کفر جس شخص نے کسی کی نسبت غیر بات کی طرف کی اس نے کفر کا ارتکاب کیا ، بلکہ ایک روایت میں اس کے لئے جنت کے حرام ہونے کا ذکر بھی آتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا کہ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارا کرو ۔ فرمایا فان لم تعلمو اباء ھم اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو فا خوانکم فی الدین وموالیکم پس وہ دین میں تمہارے بھائی اور تمہارے ساتھی ہیں ۔ مطلب یہ کہ اگر کسی کے باپ کا علم نہ ہو تو ایسے لوگوں کو بھائی یا رفیق کہہ کر پکارلو مگر غیر باپوں کی طرف نسبت بالکل نہ کرو ۔ بعض روایت 3 ؎ میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت زید ؓ سے کہا انت اخونا ومولنا تم ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھی ہو ۔ اس طرح گویا آپ نے اس آیت مبارک کی عملی تفسیر پیش کردی ۔ 1 ؎ ابن کثیر ص 664 ج 3 وقرطبی ص 811 ج 4 1 2 ؎ درمنشور ص 181 ج 5 3 ؎ ابن کثیر ص 764 ج 3 (فیاض) فرمایا ولیس علیکم جناح فیھا اخطا تم بہ اس چیز میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے جس میں تم نے خطا کی مطلب یہ کہ اگر کسی غلط فہمی کی بناء پر میرا بھول کر کسی کو غیر باپ سے منسوب کردیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (رح) حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ اللہ نے میری امت سے خطا اور نسان کے مواخذہ کو ہٹا لیا ہے ایسے شخص پر آخرت میں کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔ البتہ دنیا میں اس وجہ سے بعض احکام مرتب ہوجاتے ہیں۔ مثلا ًاگر وضو کرتے وقت غلطی سے پانی حلق میں اتر گیا تو وضو فاسق ہوجائے گا جس کی قضا لازمی ہوگی مگر آدمی گنہگار نہیں ہوگا ۔ اسی طرح اگر کسی نے کسی دوسرے شخص سے جبراً کوئی ناجائز کام کروالیا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔ کیونکہ اس نے اپنی جان کے خطرے سے کوئی غلط کلمہ زبان سے کہہ دیا ہے یا کوئی غلط کام کردیا ہے ۔ فرمایا اگر غلطی سے کسی شخص کو غیر باپ کی طرف منسوب کردیا تو گناہ نہیں ہوگا ولکن ما تعمدت قلو بکم البتہ اگر نے جان بوجھ کر دل کے ارادے سے ایسا کام کیا تو اللہ کے ہاں ماخوذ ہوگے ۔ وکان اللہ غفور اً رحیما اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور مہربان ہے ۔ غلطی کی صورت میں و ہ معاف فرمادے گا ۔ اور اگر قصداً کوئی غلط کام کرو گے تو گرفت ہوگی۔
Top