Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
تمہارے مردوں میں سے محمد کسی کے باپ نہیں ہیں اور لیکن اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النّبیین ہیں اس آیت کریمہ میں اول تو یہ فرمایا کہ تم میں جو مرد ہیں یعنی بالغ افراد ہیں محمد رسول اللہ ﷺ ان میں سے کسی کے نسبی والد نہیں ہیں، اس میں اس بات کی نفی ہے کہ آنحضرت ﷺ کسی بھی ایسے شخص کے والد ہوں جو رجولیت کے حدود میں داخل ہوگیا ہو، اس کے عموم میں زید بن حارثہ ؓ کے والد ہونے کی بھی نفی ہوگئی۔ آیت میں یہ بتادیا کہ نسبی والد ہونے سے جو باپ بیٹے کے درمیان احکام شرعیہ مرتب ہوتے ہیں مثلاً میراث جاری ہونا اور حرمت مصاہرت ثابت ہونا، آپ ﷺ کے اور زید بن حارثہ ؓ یا کسی بھی صحابی کے درمیان ان میں سے کوئی حکم بھی جاری نہیں ہے، اور (رِّجَالِکُمْ ) اس لیے فرمایا کہ آپ ﷺ چار صاحبزادیوں کے باپ تھے جو آپ ﷺ کے سامنے بالغ بھی ہوئیں اور ان کی شادیاں بھی ہوئیں۔ حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء ؓ کے علاوہ باقی صاحبزادیوں کی آپ کے سامنے وفات بھی ہوگئی۔ آپ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ ؓ کی بھی وفات ہوگئی، حضرات حسنین ؓ کے واسطہ سے آنحضرت ﷺ کی نسل حضرت فاطمہ ؓ ہی سے چلی، آپ ﷺ کی اولاد میں صاحبزادے بھی تھے چونکہ وہ سب بچپن ہی میں وفات پا گئے اس لیے اس بات میں کوئی اشکال نہیں کہ آپ مردوں یعنی بالغ افراد میں سے کسی کے والد نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ بتائی کہ گو وہ کسی بالغ مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں لیکن روحانی باپ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں بحیثیت رسول ہونے کے ساری امت پر فرض ہے کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کے اکرام اور توقیر کا ہمیشہ لحاظ رکھیں، اور ساتھ ہی آپ ﷺ کو خاتم النبیین بھی بتایا اور یہ اعلان فرما دیا کہ آپ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی نبی قیامت تک آنے والا نہیں ہے۔ اس تصریح سے واضح ہوگیا کہ آپ کی روحانی نبوت نسبی نبوت سے کہیں زیادہ اعلیٰ اور افضل ہے اور آپ ﷺ کی موجودگی میں جو صحابہ ؓ تھے صرف انہیں کے لیے نہیں ہے بلکہ آپ خاتم النبیین ہیں قیامت تک آپ کے بعد نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا موجودہ افراد اور ان کی آنے والی نسلیں اور ان کے علاوہ جو بھی اقوام اور قبائل اور افراد ذکور اور اناث (مرد و عورت) آپ پر ایمان لائیں گے، آپ سب کے روحانی باپ ہیں، آپ کی یہ فضیلت اور منقبت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ اپنی دنیا والی زندگی میں چند افراد کے نسبی باپ ہوتے۔ قال صاحب الروح فکانہ قیل : (مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ ) بحیث تثبت بینہ و بینہ ﷺ حرمۃ المصاھرۃ ولکن کان اباکل واحد منکم وابا ابنائکم وابناء ابنائکم وھکذا الیٰ یوم القیامۃ بحیث یجب لہ علیکم وعلی من تناسل منکم احترامہ وتوقیرہ ویجب علیہ لکم ولن تناسل منکم الشفقۃ والنصح الکامل) (تفسیر روح المعانی والے فرماتے ہیں گویا یہاں (مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ ) میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اس طرح تم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں کہ اس کے اور حضور ﷺ کے درمیان مصاہرت کی حرمت ثابت ہو ورنہ تو حضور ﷺ تم میں سے ہر ایک کے باپ ہیں اور تمہاری اگلی نسلوں کے بھی باپ ہیں اسی طرح قیامت تک سب کے باپ ہیں کہ تم پر اور تمہاری نسلوں پر حضور ﷺ کا اعزازو احترام واجب ہے اور حضور ﷺ پر تمہارے لیے شفقت اور کامل ہمدردی ہے۔ ) آپ ﷺ سے پہلے جو انبیاء اور رسل ( علیہ السلام) تشریف لاتے تھے وہ خاص قوم کے لیے اور محدود وقت کے لیے تشریف لایا کرتے تھے، خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک تمام جنات اور تمام انسانوں اور تمام قوموں اور قبیلوں اور تمام زمانوں اور تمام مکانوں کے بسنے والوں کے لیے رسول ہیں اور نبی ہیں کیونکہ نبی عام ہیں اور رسول خاص ہیں (جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ رسول کا اطلاق صاحب شریعت جدیدہ کے لیے ہے اور نبی ہر پیغمبر پر صادق آتا ہے صاحب شریعت جدیدہ ہو یا نہ ہو) لہٰذا خاتم النبیین فرمانے سے آپ کے خاتم الرسل ہونے کا بھی اعلان ہوگیا، سورة سباء میں فرمایا (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ الاَّ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ ) (اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ ) خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر وصف نبوت سے متصف ہونا یعنی نبوت جدیدہ سے سرفراز کیا جانا ختم ہوگیا ہے اور سلسلہ نبوت آپ کی ذات گرامی پر منقطع ہوگیا اب نبوت جدیدہ سے کوئی بھی شخص متصف نہیں ہوگا۔ ختم نبوت کے منکر قرآن کے منکر ہیں اسلام سے خارج ہیں : آپ ﷺ کے بعد جو بھی کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے، گمراہ ہے، کافر ہے اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی گمراہ اور کافر ہیں اور آیت قرآنیہ کے منکر ہیں جس میں صاف اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں، احادیث شریفہ صحیح اسانید کے ساتھ بہت زیادہ کثیر تعداد میں کتب حدیث میں مروی ہیں جن میں واضح طور پر بتایا ہے کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت اور رسالت ختم ہے۔ ان احادیث کو بعض اکابرنے اپنے رسائل میں جمع بھی فرمایا ہے، قرآن و حدیث کی تصریحات کے باوجود بعض لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا خود بھی کافر ہوئے اور اپنے ماننے والوں کو بھی کفر پر ڈالا۔ مفسر ابن کثیر ؓ (جلد 3 ص 494 میں) بہت سی احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : (فمن رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ بالعباد ارسال محمد ﷺ الیھم ثم من تشریفہ لھم ختم الانبیاء والمرسلین بہ واکمال الدین الحنیف لہ وقد اخبر اللّٰہ تبارک وتعالیٰ فی کتابہ ورسولہ فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک دجال ضال مضل ولو تحرق وشعبذ واتی بانواع السحر والطلاسم والنیر نجیات فکلھا محال وضلال عند اولی الباب) (یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کو ان کی طرف بھیجا پھر حضور ﷺ کی شان ختم نبوت بھی اور آپ پر دین حنیف کی تکمیل بھی بندوں پر رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور حضور ﷺ نے اپنی احادیث میں جو کہ متواتر ہیں خبر دے دی ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، تاکہ سب پر واضح ہوجائے کہ حضور ﷺ کے بعد جو اس مقام کا دعویٰ کرے گا وہ مکار دجال، جھوٹا ہے خود بھی گمراہ ہے دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے اگرچہ وہ جادوگریوں کے کرشمے دکھائے جو بھی طلسم و نرنگیاں دکھائے سب عقل مندوں کے نزدیک بیکار و گمراہی ہیں۔ ) خاتم النّبیین بھی قرأت متواترہ ہے : یاد رہے کہ خاتم النّبیین حضرت امام عاصم کوفی کی قرأت میں بفتح التاء ہے اور ان کے علاوہ دیگر قراء کی قرأت بکسر التاء یعنی خاتم النبیین ہے۔ خاتم (ت کے زبر کے ساتھ) مہر کے معنی میں آتا ہے اور خاتم (ت کے زیر کے ساتھ) صیغہ اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے ختم کرنے والا، دونوں قرأتوں کا مآل ایک ہی ہے یعنی آخر الانبیاء پس سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النّبیین بھی ہیں یعنی آپ کی تشریف آوری سے سلسلہ نبوت ختم ہوگیا، اور خاتم النّبیین بھی ہیں یعنی آپ کی ذات گرامی کو نبیوں کے لیے مہر بنا دیا گیا، جیسے مہر آخر میں لگائی جاتی ہے اسی طرح آپ ﷺ پر سلسلہ نبوت ختم ہوگیا اب آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ یہ دوسری قرأت جو تا کے زیر کے ساتھ ہے قرأت متواترہ ہے اس کا انکار بھی کفر ہے، ہم نے خصوصیت کے ساتھ یہ قرأت اس لیے ذکر کی ہے کہ بعض ملحدوں نے (خاتَم النّبیّن) (بفتح التاء) کا ترجمہ (افضل النبیین) کرکے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا انکار کیا۔ گزشتہ صدی میں نصاریٰ کے کہنے سے پنجاب کے ایک آدمی (مرزا قادیانی) نے نبوت کا دعویٰ کردیا تھا نصاریٰ کو اس سے اپنا مقصد نکالنا مقصود تھا، انہوں نے اس جھوٹے نبی سے جہاد شرعی منسوخ کرنے کا اعلان کرایا اور اسے اور اس کے ماننے والوں کو دنیاوی لالچ دے کر اپنا ہمنوا بنالیا، دنیا کے طالب اس شخص کی جھوٹی نبوت کا اقرار کرتے چلے گئے اور جب ان کے سامنے آیت قرآنیہ (وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ) پیش کی گئی تو طرح طرح کی تاویلیں کرکے اس کو رد کردیا اور آیت کے معانی اور مفاہیم اپنی طرف سے تجویز کردئیے اور نبوت کی قسمیں بنالیں، حقیقی اور ظلی و بروزی کی تقسیم جاری کردی تا وقت تحریر ان لوگوں کی جماعت موجود ہے جو یہود و نصاریٰ کی سرپرستی میں پرورش پاتی ہے اور اسلام اور قرآن اور مسلمانوں کی دشمنی میں برابر لگی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ان کے شر سے بچائے۔ یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی کسی آیت کا منکر ہو وہ نبی تو کیا ہوگا ادنیٰ درجہ کا مسلمان بھی نہیں، وہ تو ملحد اور زندیق اور کافر ہے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ان ملحدوں اور زندیقوں سے چوکنا رہیں یہ لوگ ایمان کے ڈاکو ہوتے ہیں۔ (وَکَان اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا) (اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے) اس میں قرآنی اعلان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے تنبیہ ہے اور وعید ہے، جو لوگ حضور خاتم النبیین ﷺ کی نبوت کے بعد کسی دوسرے شخص کی نبوت کے قائل ہیں یا اسلام کے خلاف کوئی بھی عقیدہ رکھتے ہیں، ایسے لوگ یوں نہ سمجھیں کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے اللہ تعالیٰ کو سب کا حال ظاہر و باطن، عقیدہ و عمل معلوم ہیں وہ اس کے مطابق سزا دے گا۔ حقیر دنیا کے لیے کفریہ عقائد اختیار کرنے والے اور کفریہ اعمال اختیار کرنے والے اللہ تعالیٰ کی وعید سے غافل نہ ہوں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری ختم نبوت کے منافی نہیں : احادیث صحیحہ کثیرہ متواترہ سے صراحتاً اور آیت قرآنیہ (وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ) سے (علی احد القولین) اور آیت (وَاِِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوْنِ ) سے (علی احد القولین) یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت سے پہلے تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، تمام اہل السنۃ والجماعۃ کا اس پر اجماع ہے۔ چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے تابع ہوں گے اور آپ ﷺ ہی کی شریعت پر عمل کریں گے اور امت محمد یہ سے بھی اسی شریعت پر عمل کرائیں گے اور وہ آپ ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی نبوت سے سرفراز تھے ایسا نہیں کہ وہ نئی نبوت لے کر آئیں گے بلکہ وہ پہلے ہی سے نبی ہیں جنہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا گیا تھا، دنیا میں آکر دجال کو قتل کریں گے اور شادی کرکے مسلمانوں کے ساتھ رہ کر وفات پاجائیں گے، اس سے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے خاتم النّبیین ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، شریعت محمدیہ میں جزیہ لینا مشروع ہے وہ اسے منسوخ کردیں گے، اس منسوخ کرنے کی خبر رسول اللہ ﷺ نے پیشگی دے دی ہے لہٰذا یہ بھی آپ ﷺ ہی کا منسوخ کرنا ہوا۔ حافظ جلال الدین سیوطی ؓ نے ” نزول عیسیٰ بن مریم آخر الزمان “ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے اس میں ” معجم الکبیر للطبرانی “ اور ” کتاب البعث والنشور للبیہقی “ سے حدیث نقل کی ہے اور اس کی سند جید بتائی ہے جس میں اس بات کی تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کی ملت پر ہوں گے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں : (عن عبد اللّٰہ بن مغفل ؓ قال قال رسول اللّٰہ یلبث الدجال ماشاء اللّٰہ ثم ینزل عیسیٰ بن مریم مصدقا بمحمد وعلیٰ ملتہ اماماً مھدیاً وحکماً عدلاً فیقتل الدجال) (حضرت عبد اللہ بن مغفل ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جتنا عرصہ اللہ تعالیٰ چاہے گا دجال رہے گا پھر حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے اس حال میں کہ وہ حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کریں گے اور آپ ﷺ کی ملت پر ہوں گے ہدایت کے امام ہوں گے حاکم و عادل ہوں گے اور پھر آپ دجال کو قتل کریں گے۔ ) صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (وَالَّذِیْ نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً ) (الحدیث) (باب نزول عیسیٰ (علیہ السلام) ص 490) (قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم حاکم عادل بن کر نازل ہوں گے۔ ) لفظ حکماً کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر ؓ ” فتح الباری جلد 6 ص 491“ میں لکھتے ہیں : (والمعنی انہ ینزل حاکما بھذہ الشریعۃ فان ھذہ الشریعۃ لا تنسخ بل یکون عیسیٰ (علیہ السلام) حاکماً وفیہ روایۃ اللیث عن ابن شھاب عند مسلم حکماً مقسطاً والطبرانی من حدیث عبد اللّٰہ بن مغفل ینزل عیسیٰ ابن مریم مصدقاً بمحمد علی ملتہ۔ 1 ھ) (معنی یہ ہے کہ آپ شریعت محمدیہ کے مطابق فیصلے کرنے والے بن کر نازل ہوں گے کیونکہ یہ شریعت باقی ہے منسوخ نہیں ہوسکتی بلکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسی کے مطابق حکومت کریں گے۔ اور اسی بارے میں امام مسلم نے لیث عن ابن شہاب کی روایت کی ہے کہ حاکماً سے مراد ہے عادل حکمران اور طبرانی نے حضرت عبد اللہ مغفل ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضور ﷺ کی تصدیق کرنے والے ہو کر اور آپ کی ملت کے تابع ہو کر نازل ہوں گے۔ ) امام نووی ؓ شرح مسلم میں لکھتے ہیں : (ای ینزل حاکما بھذہ الشریعۃ لا ینزل نبیا برسالۃ مستقلۃ وشریعۃ ناسخۃ بل ھو حاکم من حکام ھذہ الامۃ) (صحیح مسلم ج 1: ص 78) (یعنی آپ شریعت محمدیہ کے مطابق فیصلے کرنے والے بن کر نازل ہوں گے مستقل نبوت و رسالت اور شریعت محمدیہ کو منسوخ کرنے والی شریعت لے کر نازل نہیں ہوں گے۔ بلکہ وہ اسی امت محمدیہ کے حاکموں میں سے ایک حاکم ہوں گے۔ ) مطلب یہ ہے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے اور شریعت اسلامیہ محمدیہ کے مطابق ہی فیصلہ دیں گے، مستقل نبی نہ ہوں گے اور نہ مستقل شریعت لے کر آئیں گے جو جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کردے، وہ اسی امت کے حکام میں سے ایک حاکم ہوں گے۔ قادیانی جماعت آیت کریمہ کی تصریح کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہے اور اس وجہ سے بھی کافر ہے کہ انہوں نے خاتم النبیین کے معنی میں تحریف کی ہے اور اس کا معنی افضل النبیین بتایا ہے۔ ان جاہلوں کو معلوم نہیں کہ قرأت میں ایک قرأت تاء کے زیر کے ساتھ بھی ہے اس کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔ قادیانی زندیقوں کا جھوٹ : قادیانیوں نے ختم نبوت کا انکار کرنے کے لیے ایک یہ بات نکالی تھی کہ چونکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے تشریف لانے کی خبر ہے اس لیے نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا اور ہم جسے نبی مانتے ہیں وہ مسیح ہے۔ ان لوگوں کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جگہ جگہ مسیح بن مریم فرمایا ہے، دنیا جانتی ہے اور قادیانیوں کو بھی اس کا عمل ہے کہ مرزا قادیانی کی ماں کا نام مریم نہیں تھا، ملحدوں اور زندیقوں کو قرآن حدیث ماننا نہیں ہوتا، اپنی تاویلات و تحریفات کے پیچھے چل کر ملعون ہوتے ہیں۔ یہ لوگ یوں بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تشریف لانے کا عقیدہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم نہیں ہوئی۔ ان لوگوں کی اس بات کی تردید حضرات مفسرین کرام اور علماء عظام پہلے ہی کر گئے اور انہوں نے بتادیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مستقل رسالت و نبوت کے ساتھ نہیں آئیں گے وہ اسی شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ کے مطابق عمل کریں گے اور امت محمدیہ سے متعلق اسی سے عمل کرائیں گے جبکہ قادیانی جماعت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے دین و شریعت پر نہیں ہے، اگر آنحضرت ﷺ کے دین و شریعت پر ہوتے تو جہاد کو کیوں منسوخ کرتے، جہاد کو منسوخ کرنا ہی تو مرزا قادیانی کا اصل کارنامہ ہے جو اس نے نبوت کا دعویٰ کرانے والی حکومت برطانیہ کو خوش کرنے کے لیے انجام دیا تھا۔ ارے قادیانیو ! شرم کرو، اللہ کے سچے نبی خاتم النبیین ﷺ کے سچے امتی بنو اور جھوٹے نبی کی نبوت کے اقرار سے توبہ کرکے اپنی جانوں کو دوزخ سے محفوظ کرلو، یہ تمہاری خیر خواہی کے طور پر کہا جا رہا ہے۔ (واللّٰہ علی ما نقول وکیل)
Top