Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے ایمان والو ! اللہ کا ذکر کرو خوب کثرت کے ساتھ۔
ایمان والوں کو ذکر اللہ کی کثرت کرنے کا حکم اور اس بات کی بشارت کہ اللہ اور اس کے فرشتے مؤمنین پر رحمت بھیجتے ہیں یہ چار آیات کا ترجمہ ہے پہلی اور دوسری آیت میں اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوب زیادہ ذکر کریں اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کریں۔ مفسرین نے فرمایا کہ صبح و شام تسبیح بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ صبح سے دن کی اور شام سے رات کی ابتداء ہوتی ہے اس لیے خصوصیت کے لیے لیل و نہار کے ابتدائی اوقات میں ذکر کرنے کا خصوصی حکم دیا تاکہ لیل و نہار کے باقی اوقات میں بھی ذکر کے لیے ذہن حاضر رہے اور قلب و لسان ذکر اللہ میں مشغول رہیں۔ ذکر اللہ کے فضائل : درحقیقت ذکر اللہ بہت بڑی عبادت ہے اور ہر وقت اس میں مشغول رہنے کی ضرورت ہے سورة نساء میں فرمایا : (فَاِذَاقَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًاوَّ قُعُوْدًا) سو جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر یعنی لیٹے ہوئے، انسان کی یہی تین حالتیں ہیں اور ان تینوں حالتوں میں اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ درحقیقت ذکر ہی اس عالم کی جان ہے اور اس کے بقاء کا ذریعہ ہے۔ صحیح مسلم جلد نمبر 1: ص 24 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمین میں اللہ اللہ کیا جاتا رہے گا۔ دوسری عبادتوں کی روح بھی اللہ کا ذکر ہی ہے، سورة طٰہٰ میں فرمایا ہے : (وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) نماز کو میری یاد کے لیے قائم کرو۔ ذکر زبان سے بھی ہوتا ہے اور قلب سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان اور چین و سکون ملتا ہے جیسا کہ سورة رعد میں فرمایا (اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ ) خبر دار اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لاَ یَذْکُرُ کَمَثَلِ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ) مثال اس شخص کی جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی سی مثال ہے۔ (رواہ البخاری) معلوم ہوا کہ کھاتے پیتے رہنا اور دنیاوی مشاغل میں زندگی گزار لینا یہ کوئی زندگی نہیں ہے، زندہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگے رہتے ہیں جہاں تک ممکن ہولیٹے بیٹھے اور کھڑے ہوئے اللہ کو یاد کرتے رہیں اور زبان کو ذکر اللہ میں لگائے رہیں۔ ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جنت والوں کو کسی بھی چیز کی حسرت نہ ہوگی سوائے اس ایک گھڑی کے جو دنیا میں اللہ کی یاد کے بغیر گذر گئی تھی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی اکرم ﷺ نے کہ چند لوگ کسی جگہ بیٹھے انہوں نے اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہ کیا اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجا تو یہ مجلس ان کے لیے نقصان کا سبب ہوگی، پھر اگر اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے اور اگر چاہے تو ان کی مغفرت فرما دے، اور اگر کوئی شخص کسی جگہ لیٹا اور اس نے لیٹنے میں اللہ کو یاد نہ کیا تو یہ لیٹنا اس کے لیے نقصان کا سبب ہوگا اور جو شخص کسی جگہ چلا اور اس چلنے میں اس نے اللہ کو یاد نہ کیا تو اللہ کی طرف سے اس کا یہ چلنا نقصان کا باعث ہوگا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی جگہ بیٹھے جس میں انہوں نے اللہ کو یاد نہ کیا اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجا تو قیامت کے دن ان کا یہ بیٹھنا حسرت اور افسوس کا باعث ہوگا اگرچہ ثواب کے لیے جنت میں داخل ہوجائیں۔ (الترغیب و الترہیب جلد 2 ص : 410، 409) ہوشیار بندے وہی ہیں جو اپنی عمر کی ایک گھڑی بھی ضائع نہیں جانے دیتے، دنیا میں جینے کے لیے جو تھوڑے بہت شغل کی ضرورت ہے، اس میں تھوڑا بہت وقت لگایا اور اس میں بھی اللہ کا ذکر کرتے رہے اس کے بعد سارے وقت کو اللہ ہی کی یاد میں تلاوت میں تسبیح میں تہلیل میں، تحمید میں، تکبیر میں، درود شریف میں لگاتے رہتے ہیں لایعنی باتوں میں مشغول ہو کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے اور اپنے دل کا ناس نہیں کھوتے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ نہ بولا کرو کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بولنا قساوت قلب یعنی دل کی سختی کا سبب ہے اور بلاشبہ لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور وہی شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ (رواہ الترمذی) ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کا ہر بول اس کے لیے وبال ہے سوائے اس بات کے کہ بھلائی کا حکم دے یا کسی برائی سے روکے یا اللہ کا ذکر کرے۔ (رواہ الترمذی) حضرت عبد اللہ بن بسر ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی یعنی دیہات کا رہنے والا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے سوال کیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال اچھے ہوں، اس نے عرض کیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ تو دنیا سے اس حال میں رخصت ہو کہ تیری زبان اللہ کی یاد میں تر ہو۔ (رواہ الترمذی) سورۂ طہٰ میں فرمایا ( اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) (نماز قائم کر میرے ذکر کے لیے) نماز سے پہلے اذان بھی ذکر ہے اور اقامت بھی، اذان کا جواب بھی، وضو کی دعا بھی، فرضوں سے پہلے سنتیں بھی، پھر تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک نمازی برابر ذکر میں مشغول رہتا ہے، کبھی اللہ کی حمد وثناء میں مشغول رہتا ہے، کبھی تکبیر کہتا ہے کبھی قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے، کبھی اللہ کی حمد بیان کرتا ہے، کبھی تنزیہ کلمات ادا کرتا ہے اور اپنے رب کو ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک بتاتا ہے اور اس کے بارے میں اپنا عقیدہ ظاہر کرتا ہے اور کبھی دعا مانگتا ہے نمازی کی زبان بھی اللہ کی یاد میں لگی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دل بھی اللہ کے ذکر میں مشغول ہے، قلب حاضر ہے، اعضاء متواضع ہیں۔ کبھی قیام میں قرأت پڑھ رہا ہے، کبھی رکوع میں تسبیح ہے، کبھی قومہ میں تحمید ہے، کبھی سجدہ میں گیا، جبین نیاز زمین پر رکھ دی اور رب تعالیٰ شانہٗ کی تسبیح میں مشغول ہوگیا، بندہ کے پاس اپنا عجز و نیاز اور تذلل اور عبودیت کا عملی اقرار ظاہر کرنے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اشرف الاعضاء یعنی اپنے سر کو ارذل العناصر یعنی مٹی پر رکھ دیا اور اپنے رب کریم کے حضور اپنی ذات کو بالکل ذلیل کرکے پیش کردیا۔ پھر نماز کے بعد سنن و نوافل بھی ذکر ہیں اور نماز کے بعد تسبیحات بھی، درحقیقت پانچوں نمازیں اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف کھینچتی ہیں، مومن کی زندگی سراپا ذکر ہے۔ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر بازار میں جانے کی اجازت دی اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا حکم فرمایا، سورة جمعہ میں ارشاد فرمایا : (فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (پھر جب نماز پوری کرچکو تو زمین پر چلو پھرو، اور اللہ کے فضل سے تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ) اللہ تعالیٰ ذاکرین کو یاد فرماتا ہے : سورۂ بقرہ میں فرمایا (فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ ) (سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا) دیکھو کتنی بڑی سعادت ہے کہ فرش خاکی کا رہنے والا جس کے اندر خون وغیرہ بھرا ہوا ہے اسے صاحب عرش اپنے دربار میں یاد فرمائیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ ہلتے ہیں۔ (رواہ البخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندہ کے گمان کے ساتھ ہوں کہ وہ جب چاہے مجھے یاد کرے سو اگر وہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں اسے تنہا یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس جماعت سے بہتر ہوتی ہے۔ 1 ؂ جس میں اس نے مجھے یاد کیا۔ (رواہ البخاری) حافظ ابن کثیر ؓ نے حضرت ابن عباس سے کیسی عمدہ بات نقل فرمائی ہے، انہوں نے فرمایا : (ان اللّٰہ تعالیٰ لم یفرض علیٰ عبادہ فریضۃ الاجعل لھا حدّا معلوما ثم وعذر اھلھا فی حال العذر غیر الذکر فانّ اللّٰہ تعالیٰ لم یجعل لہ حدا ینتھی الیہ ولم یعذر احدا فی ترکہ الا مغلوبا علی ترکہ فقال (فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًاوَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ ) باللیل والنھار فی البر والبحر و فی السفرو الحضر، والغنی والفقر، والسقم والصحۃ، والسرو العلانیۃ وعلی کل حال) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو عبادات فرض فرمائی ہیں ان کی حد مقرر ہے اور اصحاب عذر کو (معافی یا تخفیف کی صورت میں) معذور قرار دیا ہے مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ اس کی نہ کوئی حد اور تعداد متعین ہے اور نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لیے کوئی خاص ہیئت قیام یا نشست کی مقرر فرمائی ہے نہ اس کے لیے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے، ہر وقت اور ہر حال میں بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا حکم ہے، سفر ہو یا حضر، تندرستی ہو یا بیماری، خشکی میں ہو یا دریا میں، رات ہو یا دن ہر حال میں ذکر اللہ کرتے رہیں، اسی لیے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر 1 ؂ قال الطیبی، المراد ملأمن الملئکۃ المقربین ارواح المرسلین فلا دلالۃ علی کون الملئکۃ افضل والا حسن ان یقال الخیریۃ من جھت النزاھۃ والتقدس والعلو وھی لا تنافی افضلیلۃ البشر من جھۃ کثرۃ الثواب۔ (کذا فی حاشیۃ المشکوٰۃ عن المعارف) علامہ طیبی ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد مقرب فرشتوں اور بھیجی ہوئی روحوں کی جماعت ہے۔ یہ بات فرشتوں کے افضل و احسن ہونے کی لیل نہیں ہے کہ کہا جائے فرشتے اپنی بےخواہشی اور معصومیت و بلندی کی وجہ سے افضل و بہتر ہیں کیونکہ انسان کے کثرت ثواب کی وجہ سے یہ چیزیں بشریت کو کم قیمت کرنے والی نہیں ہیں۔
Top