Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 78
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْكَ١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے رُسُلًا : بہت سے رسول مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّنْ : جن کا قَصَصْنَا : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ سے وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جن کا لَّمْ : نہیں نَقْصُصْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ ۭ : آپ سے وَمَا كَانَ : اور نہ تھا لِرَسُوْلٍ : کسی رسول کے لئے اَنْ يَّاْتِيَ : کہ وہ لائے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا : مگر، بغیر بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ : اللہ کے حکم سے فَاِذَا : سو جب جَآءَ : آگیا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم قُضِيَ : فیصلہ کردیا گیا بِالْحَقِّ : انصاف کے ساتھ وَخَسِرَ : اور گھاٹے میں رہ گئے هُنَالِكَ : اس وقت الْمُبْطِلُوْنَ :غلط کار
اور یہ واقعی بات ہے کہ ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے جن میں سے بعض کا تذکرہ ہم نے آپ سے بیان کردیا اور ان میں بعض ایسے ہیں جن کا تذکرہ ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا، اور کسی رسول کو یہ قدرت نہیں کہ کوئی نشانی لے آئے مگر اللہ کے اذن سے، پھر جب اللہ کا حکم آجائے گا تو حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور اس وقت باطل والے خسارہ میں رہ جائیں گے۔
ہم نے آپ سے بعض رسولوں کا تذکرہ کردیا ہے اور بعض کا نہیں کیا، کسی نبی کو اختیار نہ تھا کہ اذن الٰہی کے بغیر کوئی نشانی لے آئے آیت بالا میں دو باتیں ذکر فرمائیں اولاً رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے بڑی تعداد میں رسول بھیجے جن میں سے بعض کا تذکرہ ہم نے آپ سے کردیا اور بعض کا تذکرہ نہیں کیا۔ جن حضرات کا تذکرہ فرمایا ہے سورة بقرہ، سورة مائدہ، سورة انعام اور سورة اعراف و سورة ہود اور سورة الانبیاء میں اور بعض دیگر سورتوں میں مذکور ہیں یہ اس کے معارض نہیں ہے کہ اجمالی طور پر ان حضرات کی تعداد سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو باخبر فرما دیا ہو تفصیلی اخبار و آثار کا بیان نہ فرمانا اجمالی عدد جاننے کے لیے منافی نہیں، مسند احمد میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ انبیاء (علیہ السلام) کرام کی کتنی تعداد ہے آپ نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار (مزید فرمایا کہ) ان میں تین سو پندرہ رسول تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 151) چونکہ یہ حدیث متواتر نہیں ہے اس لیے علماء نے فرمایا کہ ایمان لانے میں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا خاص عدد ذکر نہ کرے بلکہ یوں عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ دوسری بات یہ بتائی کہ کسی نبی کو یہ قدرت نہ تھی اور نہ یہ اختیار تھا کہ خود سے کوئی معجزہ لے آئے جتنے بھی معجزات امتوں کے سامنے لائے گئے وہ سب اللہ کے اذن اور مشیت سے تھے سابقین انبیائے کرام (علیہ السلام) سے بھی ان کی امتوں نے اپنی خواہشوں کے مطابق معجزات طلب کیے وہ حضرات خود مختار نہ تھے جو خود سے معجزات پیش کردیتے اللہ تعالیٰ نے جو معجزہ چاہا ظاہر فرما دیا آپ سے بھی امت کے لوگ خود تراشیدہ معجزات طلب کرتے ہیں اور اس کے ظاہر نہ ہونے پر آپ کی تکذیب کرتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے انبیائے سابقین کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے آپ تسلی رکھیے اور ان حضرات کی طرح صبر کیجیے (فَاِِذَا جَاءَ اَمْرُ اللّٰہِ قُضِیَ بالْحَقِّ ) پھر جب اللہ کا حکم آئے گا یعنی دنیا میں یا آخرت میں عذاب کا نزول ہوجائے گا تو اس وقت فیصلہ کردیا جائے گا جو حضرات حق پر ہوں گے ان کی نجات ہوگی اور اجر وثواب ملے گا اور اہل باطل عذاب میں مبتلا ہوں گے (وَخَسِرَ ھُنَالِکَ الْمُبْطِلُوْنَ ) اور اس وقت باطل والے خسارہ یعنی ہلاکت اور بربادی میں پڑجائیں گے لہٰذا آپ انتظار فرمائیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور فیصلہ ہوگا اور حق فیصلہ ہوگا۔
Top