Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
قَالَ : وہ بولا فَبِمَآ : تو جیسے اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاَقْعُدَنَّ : میں ضرور بیٹھوں گا لَهُمْ : ان کے لیے صِرَاطَكَ : تیرا راستہ الْمُسْتَقِيْمَ : سیدھا
وہ کہنے لگا سو اس وجہ سے کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور ضرور ان لوگوں کے لیے آپ کے سیدھے راستہ پر بیٹھوں گا،
ابلیس کا قسم کھانا کہ بنی آدم کو گمراہ کرتا رہوں گا : جب اللہ تعالیٰ شانہٗ نے لمبی عمر دینے کا وعدہ فرما لیا تو ابلیس نے اپنے کینہ اور دشمنی کا اظہار کیا۔ بنی آدم سے اپنی ملعونیت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں عرض کیا کہ میں آپ کی عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان کو ضرور ضرور گمراہ کروں گا۔ (یہ الفاظ سورة ص میں ہیں) اور یہاں سورة اعراف میں اس کا قول ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے۔ (فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ) کہ اس سبب سے کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا میں آپ کے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا اور ان کی راہ ماروں گا، اس نے مزید کہا (ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ ) (ان کے پاس ضرور آؤں گا ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی داہنی جانب سے اور ان کی بائیں جانب سے اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے) ۔ ابلیس نے بنی آدم کو بہکانے کے لیے چار جہات کا ذکر کیا کیونکہ ان چار جہات سے کوئی کسی کے پاس آسکتا ہے مطلب اس کا یہ تھا کہ بقدر امکان جہاں تک ہو سکے گا میں ان کو بہکانے کی کوشش کروں گا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ جہت فوق (اوپر کی جانب) سے رحمت مانع ہوتی ہے اس لیے ادھر سے شیطان کے آنے کا راستہ نہیں اور نیچے کی جانب سے بھی نہیں آسکتا اس لیے ان دونوں جہتوں کو چھوڑ دیا۔ یہ ابلیس کی دوسری ڈھٹائی ہے کہ گمراہی کی نسبت اب بھی اس نے اپنی طرف نہیں کی بلکہ اس نے یوں کہا کہ اے اللہ ! آپ نے مجھے گمراہ کیا میں ان کی راہ ماروں گا۔ سورة نحل میں ہے کہ اس نے انسانوں کو بہکانے کے لیے قسم کھاتے ہوئے یوں کہا (لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) اور سورة بنی اسرائیل میں کہا (اَھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ ) (کیا یہ ہے جسے آپ نے میرے مقابلہ میں عزت دیدی) (لَءِنْ اَخَّرْتَنِ الیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَاَ حْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا) (اگر آپ نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیدی تو بجز قدر قلیل کے میں اس کی ساری ذریت کو اپنے قابو میں کر لونگا۔ ) ابلیس تو اپنی قسم کو نہیں بھولا اپنی ضد اور ہٹ پر قائم ہے۔ بنی آدم کو بہکانے ورغلانے اور گمراہ کرنے میں اس نے اور اس کی ذریت نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بنی آدم کو کفر پر شرک پر اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرتا ہی رہتا ہے۔ گمراہ زیادہ ہیں۔ اہل ہدایت کم ہیں۔ صالحین مخلصین بہت کم ہیں اس نے پہلے ہی (اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ) کہہ کر مخلصین کا استثناء کردیا تھا اور جو اس نے (وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ ) کہا تھا اس کے قول کو بنی آدم نے اس کا اتباع کر کے سچ کر دکھایا۔
Top