Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 82
وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جس سے اَطْمَعُ : میں امید رکھتا ہوں اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ : کہ مجھے بخش دے گا خَطِيْٓئَتِي : میری خطائیں يَوْمَ الدِّيْنِ : بدلہ کے دن
اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا
والذی اطمع ان یغفرلی خطیئتی یوم الدین۔ اور جس سے مجھے یہ امید ہے کہ میری غلط کاری کو وہ قیامت کے دن معاف کر دے گا۔ حضرت ابراہیم نے اپنی خطا کا اقرار بطور انکسار نفس کیا (کیونکہ پیغمبر معصوم ہوتے ہیں اور ان سے خطا کا یعنی گناہ کبیرہ کا صدور نہیں ہوتا۔ مترجم) ۔ یا اس سے مقصود تھا اپنی امت کو تعلیم دینا کہ گناہوں سے بچتے رہیں اور جو گناہ ان سے صادر ہوجائے اس کی معافی کی درخواست کریں یا یوں کہا جائے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے رخصت پر عمل کیا (ناجائز کام تو نہیں کیا) لیکن عزیمت کو ترک کردیا (یعنی بلندی مرتبہ جس کام کا تقاضا کرتی تھی وہ نہیں کیا) اور عزیمت کو ترک کرنے کی صرف یہ وجہ تھی کہ امت پر بار نہ پڑجائے جس کا اٹھانا لوگوں کے لئے دشوار ہو اس لئے آپ نے رخصت پر عمل کیا تاکہ امت کو عمل میں سہولت ہو اور اسی ترک عزیمت کے لئے استغفار کیا (کیونکہ ترک عزیمت آپ کے علو مرتبہ کے خلاف تھا) ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خطا وہی تین الفاظ تھے جو انہوں نے کہے تھے قوم والوں سے کہا تھا اِنِّیْ سقیم حالانکہ بیمار نہ تھے (اور کہا تھا بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُہُمْیہ حرکت بڑے بت نے کی ہے (حالانکہ یہ بات غلط تھی) اور حضرت سارہ کے متعلق بادشاہ سے کہا تھا ہٰذہ اختییہ میری بہن ہے (حالانکہ سارہ آپ کی بہن نہ تھیں بلکہ بی بی تھیں) مجاہد نے اس کو تیسری خطا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قرار دیا ہے لیکن جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول ہذا ربی کو خطا قرار دیا ہے اس طرح خطائیں تین سے زیادہ ہوجائیں گی۔ حضرت مفسر نے فرمایا ان الفاظ کو خطا کہنا کمزور بات ہے یہ الفاظ تو توریہ کے تھے (ذومعنی تھے حضرت ابراہیم کی مراد کچھ اور تھی اور مخاطب کچھ اور سمجھ گیا) اور توریہ کو خطا نہیں کہا جاسکتا۔ بغوی نے بوساطت مسروق حضرت عائشہ ؓ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں میں نے عرض کیا ابن جدعان دور جاہلیت میں کنبہ پروری کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کا اس کو کچھ نفع ملے گا فرمایا اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا اگر اس نے کسی دن بھی رَبِّ اغْفِرْلِیْ خَطِیَءِتْی یَوْمَ الدِّیْنَنہیں کہا ہوگا۔ حضرت ابراہیم نے قوم کے سامنے جو کچھ تفصیل سے بیان کیا وہ سب بطور استدلال تھا اور یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ جس معبود میں ایسا کرنے (یعنی پیدا کرنے ‘ رہنمائی کرنے ‘ کھلانے ‘ پلانے ‘ شفا دینے اور مارنے جلانے) کی طاقت نہ ہو وہ معبود ہونے کا حق نہیں رکھتا نہ اس کی پوجا جائز ہے۔
Top