Anwar-ul-Bayan - Hud : 108
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو سُعِدُوْا : خوش بخت ہوئے فَفِي الْجَنَّةِ : سو جنت میں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب عَطَآءً : عطا۔ بخشش غَيْرَ مَجْذُوْذٍ : ختم نہ ہونے والی
اور جو نیک بخت ہوں گے ہے بہشت میں (داخل کئے جائیں گے اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ کہ خدا کی بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔
(11:108) سعدوا۔ سعد سے ماضی مجہول جمع مذکر غائب وہ نیک بخت بنائے گئے۔ (باب فتح) سعد (باب فتح) کے معنی نیک بخت کرنا۔ میں اہل لغت نے اختلاف کیا ہے۔ بعض نے آیۃ ہذا سے استدلال کرتے ہوئے ان معنوں کو جائز رکھا ہے لیکن محققین اہل لغت نے اس سے انکار کیا ہے ان کا بیان ہے کہ ان معنی میں عرب کا محاورہ اسعدہ اللہ (اللہ اس کو نیک بخت کرے) ہے۔ اور یہ کہ سعادۃ۔ شقاوۃ کی طرح لازم ہے۔ سیبویہ نے کہا ہے کہ یہ لغت قیاس سے خارج ہے ۔ یا یہ باب فعل فعلتہ سے ہوگی یعنی لازم بھی اور متعدی بھی۔ جیسے کہ غاض وہ گھٹ گیا۔ اور غضتہ میں نے اس کا گھٹا دیا۔ اسی طرح سعد وہ نیک بخت ہوا۔ اور سعدتہ میں نے اس کو نیک بخت کیا۔ لیکن لغت الفرائد الدریہ اور لغت المنجد میں سعد (باب سمع) اور سعد کا مصدر سعارۃ لکھا ہے۔ بمعنی نیک بخت ہونا۔ خوش نصیب ہونا۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ۔ وذکران الفراء حکی ان ھذیلا تقول : سعدہ اللہ بمعنی اسعدہ۔ یعنی قبیلہ ہذیل کے لوگ سعد کو بمعنی اسعد بولتے ہیں یعنی بطور فعل متعدی لیتے ہیں۔ پس سعدوا (بصورت فعل مجہول) کے معنی ہوں گے۔ وہ نیک بخت بنائے گئے۔ بصورت فعل لازم ۔ جو نیک بخت ہیں۔ عطائ۔ عطاء بخشش۔ عطیہ۔ انعام ۔ صلہ۔ اس کی جمع اعطیۃ اور اعطیات ہے۔ عطاء اعطاء سے اسم ہے اس کی اصل عطاء تھی (کیونکہ اس کا مادہ عطو ہے) مگر اہل عرب کا دستور ہے کہ جب الف کے بعد واؤ اور یاء آتے ہیں تو ان کو ہمزہ بنا لیتے ہیں۔ جیسے رد ای سے ردائ۔ عطاء یہاں بطور مصدر استعمال ہوا ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے اعطوا ۔ عطاء اور حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ غیر مجذود۔ مجذوذ۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ جذ مصدر۔ باب نصر۔ منقطع ۔ غیر مجذوذ غیر منقطع۔ دوامی۔ لازوال ۔ الجذ کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں۔ اور پتھر یا سونے کے ریزوں کو جذاذ کہا جاتا ہے۔ اسی معنی میں قرآن میں آیا ہے۔ فجعلہم جذاذا (21: 158) پھر ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا۔
Top