Asrar-ut-Tanzil - Ar-Ra'd : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور آپ سے ذوالقرنین کے بارے سوال کرتے ہیں فرما دیجئے کہ میں ان کا کسی قدر حال تم کو پڑھ کر سناتا ہوں
(رکوع نمبر 12) اسرارومعارف آپ سے ذوالقرنین کے بارے سوال کرتے ہیں کہ یہ ایک بہت عظیم الشان بادشاہ گذرا تھا اور اس کے بہت سے قصے مشہور ومعروف تھے ، ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے تو کفار مکہ نے آپ ﷺ پر سوال کیا کہ اگر آپ ﷺ نبی ہیں اور آپ ﷺ پر وحی آتی ہے تو آپ ﷺ اس کے بارے صحیح اور درست بات ارشاد فرمائیے ۔ (ذوالقرنین کون تھا) ذوالقرنین کا نام قرآن نے نہیں دیا بلکہ پہلے سے مشہور تھا اور اسی نام سے مشہور تھا اور اسی نام سے سوال ہوا تھا ، یہ نام کیوں تھا اس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، بعض کے مطابق اس کے سر پر دو چوٹیاں تھیں تو بعض نے کہا کہ دو سینگ نما چیزیں تھیں اور بعض کی رائے میں سر پر دونوں جانب زخم کی نشان تھے ، نام سکندر اور لقب ذوالقرنین تھا ، قرآن نے اس کے مومن صالح اور عظیم حکمران ہونے کی خبر دی ہے ، اس کے علاوہ اسرائیلی روایات ہیں جن کا اعتبار نہیں ہاں اس نام کے کئی لوگ گذرے ہیں جن کے نام بھی سکندر ہی تھے اور ان سب میں آخر وہ سکندر تھا جو مقدونیہ کا رہنے والا اور سکندر اعظم مشہور ہے اسے ذوالقرنین قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ مومن نہ تھا بلکہ مشرک تھا اور آتش پرست تھا ، ارسطو اسی کا وزیر تھا یہ ذوالقرنین البدایہ والنہایہ کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوا ہے ۔ واللہ اعلم۔ بہرحال ارشاد ہوا کہ ان سے کہیے میں تمہیں اس کا کچھ احوال سناتا ہوں گریا یہ تفصیل جو ضروری نہیں خود کتاب اللہ مذکور نہیں ہے ، بات یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے اسے بہت مضبوط سلطنت بخشی تھی ۔ (حکومت بھی بہت بڑی نعمت ہے) اور اس کے پاس سلطنت کی بقا اور دشمنوں سے مقابلہ کے تمام اسباب مہیا تھے کہ حکومت واقتدار اگر اللہ جل جلالہ کی اطاعت کے ساتھ نصیب ہو تو بہت ہی بڑی نعمت ہے ۔ چناچہ وہ ایک سمت نکلا اور شہروں پہ شہر اور علاقے فتح کرتا ہوا انتہائی مغرب میں جا پہنچا جہاں آگے خشکی نہ تھی بلکہ حد نگاہ پر سورج سیاہ دلدل یعنی سمندر میں ڈوبتا ہوا لگتا تھا وہاں اسے ایک کافر اور انتہائی ظالم قوم سے واسطہ پڑا جن پر وہ غالب آیا اور اللہ جل جلالہ کی طرف سے ارشاد ہوا ۔ (ولی سے بھی خطاب ممکن ہے) کہ اے ذوالقرنین انہیں سزا دے یا حسن سلوک کرے تجھے اس کا اختیار ہے ، یہاں بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے وہ نبی ہو اور بذریعہ وحی خطاب ہوا ہو ، بعض کے مطابق حضرت خضر (علیہ السلام) اس کے معاون تھے ، ان کے ذریعے ہوا مگر ان کی نبوت پہ بھی کوئی دلیل نہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ خود اسے الہام یا القا ہوا کہ ولی سے خطاب بھی ہو سکتا ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے ہوا اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا ، لہذا اس نے فیصلہ کیا کہ اگر یہ لوگ باز آگئے اور تائب ہوگئے ، تو بہتر ورنہ جو ظلم پہ قائم رہے انہیں ضرور سزا دوں گا اور قتل کئے جائیں گے ، مگر کفر کے مقابل تو یہ سزا بھی بہت معمولی ہے اصل سزا تو انہیں قتل ہونے کے بعد ملے گی جب برزخ اور آخرت میں پہنچیں گے تو اللہ جل جلالہ انہیں سخت عذاب دے گا ہاں جن کو ایمان نصیب ہوگیا اور انہوں نے اپنا کردار درست کرلیا اور صالح اعمال اختیار کیے تو ان پر کوئی سختی نہ کی جائے گی بلکہ انعامات سے نوازے جائیں گے اور عزت واحترام پائیں گے ۔ پھر وہ سفر پہ نکلا تو انتہائے مشرق تک جا پہنچا یوں نظر آتا تھا جیسے سورج یہیں سے طلوع ہوتا ہے کہ زمین اور خشکی کی حد ختم ہوگئی ، اور وہاں ایسی قوم سے واسطہ پڑا جو کھلے آسمان تلے رہنے کے عادی تھے اور گھر نام کی کوئی شے نہ بناتے تھے ان سے بھی وہی معاملہ کیا جو اہل مغرب سے کیا تھا کہ یہ جو بات بتائی جا رہی ہے یہ اس کی حقیقی خبر ہے محض قصہ کہانی کی طرح کی بات نہیں ۔ پھر تیسری جانب متوجہ ہوا مفسرین کے مطابق شرق وغرب کی تسخیر کے بعد شمال کا عزم کیا اور بلند پہاڑوں کے درمیان ایسی قوم کو پایا جن کے پاس کوئی لغت نہ تھی ، اور نہ علم کے ذرائع تھے کہ وہ باشعور ہوتے تو انہوں نے کہا اے ذوالقرنین ہمیں تو یاجوج وماجوج کی تباہی کا سامنا ہی پریشان کئے رکھتا ہے اور ہم کچھ بھی تو کر نہیں پاتے ، نہ قیام امن کی کوئی صورت ہے نہ تحصیل علم کی ۔ (یاجوج وماجوج کیا ہیں) اس موضوع پر بہت طویل بحثیں کی گئی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ انسانوں ہی میں سے ایک بیحد وحشی قوم شمال کے علاقوں میں اسی سد سکندری کے پیچھے قید ہے جو قرب قیامت میں نکلے گی اور روئے زمین کو تاخت و تاراج کر دے گی اور پھر اللہ جل جلالہ کے حکم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے کسی وباء میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجائے گی ، یہ سب ظہور دجال ، نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اور یاجوج وماجوج قیامت سے پہلے کے واقعات ہیں جو ظہور پذیر ہوں گے ، چناچہ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ ان سے حفاظت کا کوئی طریقہ بتادیں یا ان کے اور ہمارے درمیان دیوار کھڑی کردیں تو ہم اس کے لیے ٹیکس اور مالی معاونت کو تیار ہیں آپ نے کہا کہ مال و دولت تو مجھے میرے رب نے بہت دے رکھا ہے ہاں تو تم کام کر کے دو اور افرادی قوت سے میری مدد کرو تو میں اس درے میں ایک ناقابل شکست دیوار بنا دوں ، چناچہ اس نے لوہے کی موٹی چادریں منگوائیں اور اس طرح ان کی دیوار بنائی کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کو بھر کر برابر کردیا ، پھر انہیں گرم کرانا شروع کردیا جب وہ سب گرم ہو کر آگ کی طرح دہکنے لگیں تو ان پر پگھلا ہوا تانبہ ڈلوا دیا اور یوں وہ سب ایک جان ہو کر ایک بہت مضبوط دیوار بن گئی تو کہا لو اب نہ تو وہ اس پر چڑھ سکیں گے کہ اس کی سطح ایسی نہیں کہ اوپر چڑھا جاسکے اور بہت مضبوط ہے نہ ہی اس میں سوراخ کرسکیں گے ، یہ دیوار اور اس کے بنانے کی توفیق سب ہی تو میرے رب کی رحمت ہے ہاں جب اللہ جل جلالہ کا وعدہ آئے گا اور وہ انہیں راستہ دینا چاہے گا تو اس کی مضبوطی وغیرہ کچھ نہ رہے گی اور یہ تباہ ہوجائے گی کہ میرے پروردگار کے وعدے یقینی طور پر سچے ہیں ۔ اور جب ان کے نکلنے کا زمانہ آئے گا تو ایک سیلاب کی طرح ملکوں پہ بڑھتے اور تباہ کرتے چلے آئیں گے اور ہر شے کو تاراج کردیں گے ، یہ قرب قیامت کا زمانہ ہوگا کہ پھر اس کے بعد ہی واقعات قیامت شروع ہوجائیں گے اور صور پھونکے جائیں گے دنیا کی بساط لپٹ جائے گی اور کفار جہنم کو رو برو پائیں گے ، وہ لوگ جو دنیا میں محو ہو کر میری یاد بھول چکے تھے اور ایمان تک نہ لائے اور احقاق حق کی پرواہ تک نہ کی بلکہ سنی ان سنی کرتے رہے ۔
Top