Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں
ویسئلونک عن ذی القرنین اور وہ (یہودی یا مکہ کے مشرک بطور امتحان) آپ سے ذوالقرنین کے متعلق سوال کر رہے ہیں۔ بغوی نے کہا ہے بعض علماء کے نزدیک ذوالقرنین کا نام مرزبان بن مرزیہ تھا یہ یونانی تھا اور یافث بن نوح کی نسل میں سے تھا بعض نے کہا وہ رومی تھا سکندر بن قبلیس بن فیلقوس نام تھا میرے نزدیک مؤخر الذکر قول زیادہ صحیح ہے۔ شیرازی نے الالقاب میں اور ابن اسحاق وابن المنذر و ابن ابی حاتم نے وہب بن منبہ یمنی کا بیان نقل کیا ہے وہب بن منبہ گزشتہ واقعات تاریخی کا بڑا عالم تھا کہ ذوالقرنین رومی تھا ایک بڑھیا کا ایک اکلوتا بیٹا تھا ‘ بڑھیا کی کوئی اور اولاد نہ تھی ذوالقرنین کا نام سکندر تھا۔ ابن المنذر نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ سکندر ہی ذوالقرنین تھا۔ بغوی نے لکھا ہے ذوالقرنین نبی تھا یا نہیں یہ اختلافی مسئلہ ہے کچھ لوگ کہتے ہیں نبی تھا ابوالطفیل کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ سے ذوالقرنین کے متعلق دریافت کیا گیا کہ وہ نبی تھا یا بادشاہ تھا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا نہ وہ نبی تھا نہ بادشاہ تھا ایک ایسا بندہ تھا جو اللہ سے محبت کرتا تھا اور اللہ اس سے محبت کرتا تھا ‘ اس نے اللہ کی فرمانبرداری خلوص سے کی اللہ نے اس کو خیر عطا فرمائی۔ ابن مردویہ نے سالم بن ابی الجعد کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ سے دریافت کیا گیا کیا ذوالقرنین نبی تھا ؟ فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ : کو فرماتے سنا تھا کہ ذوالقرنین اللہ کا مخلص فرماں بردار بندہ تھا۔ اللہ نے بھی اس کے خلوص کی قدردانی کی۔ بغوی نے لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے سنا ایک شخص دوسرے کو ذوالقرنین کہہ کر پکار رہا ہے ‘ فرمایا پیغمبروں کے ناموں پر اپنے نام رکھنے پر تم نے قناعت نہیں کی کہ اب فرشتوں کے ناموں پر اپنے نام رکھنے لگے ‘ اکثر علماء کا خیال ہے کہ ذوالقرنین ایک عادل نیک بادشاہ تھا ‘ ذوالقرنین کی وجہ تسمیہ کیا تھی ‘ بغوی نے اس کے متعلق مختلف اقوال نقل کئے ہیں 1) آفتاب کے دو کنارے ہیں مشرق اور مغرب ذوالقرنین دونوں کناروں تک جا پہنچا تھا۔ 2) روم اور فارس دونوں کا بادشاہ تھا۔ 3) روشن دنیا میں بھی وہ رہا اور ظلمات میں بھی داخل ہوا (شاید یہ مراد ہے کہ افریقہ بلاد سوڈان اور روم دونوں جگہ گیا۔ نور سے مراد گوروں کا ملک اور ظلمت سے مراد کالوں کا ملک) 4) اس نے خواب دیکھا تھا کہ آفتاب کے دونوں کنارے اس نے پکڑ لئے ہیں۔ 5) اس کے دو خوبصورت گیسو تھے (قرن گیسو یا زلف) 6) اس کے دو سینگ (یعنی سر میں دو ابھار) تھے جن کو عمامہ سے چھپائے رکھتا تھا۔ ابن عبدالحکم نے یونس بن عبید کی روایت سے اور شیرازی نے الالقاب میں قتادہ کے حوالہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ 7) ابوالطفیل کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ نے ذوالقرنین کی وجہ تسمیہ یہ بیان فرمائی کہ اس نے اپنی قوم کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کی قوم نے اس کے سر کے دائیں طرف ایسی چوٹ ماری کہ وہ مرگیا اور اللہ نے اس کو زندہ کردیا اور اس نے قوم کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کی قوم نے پھر اس کے سر کے بائیں جانب ایسی ضرب لگائی کہ وہ مرگیا مگر اللہ نے اس کو پھر زندہ کردیا (قرن کھوپڑی کا دایاں بایاں ابھار یا پیشانی کا دایاں بایاں رخ) ۔ احمد نے الزہد میں اور ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے العظمۃ میں ابوالورقاء کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ سے دریافت کیا گیا۔ ذوالقرنین کے دو سینگ کیسے تھے فرمایا تم خیال کرتے ہو گے کہ سونے یا چاندی کے دو سینگ تھے ایسا نہ تھا بلکہ وہ نبی تھے اللہ نے امت کو ہدایت کرنے کے لئے ان کو مبعوث فرمایا تھا انہوں نے امت کو دعوت دی لوگوں نے ان کے سر کے بائیں جانب ایسی چوٹ ماری کہ وہ مرگئے پھر اللہ نے ان کو زندہ کردیا اور دعوت کا حکم دیا انہوں نے قوم کو دعوت دی لوگوں نے ان کے سر کے دائیں جانب ایسی ضرب رسید کی کہ وہ مرگئے اور اللہ نے ان کا نام ذوالقرنین رکھ دیا۔ قال ساتلوا علیکم منہ ذکرا۔ آپ کہہ دیجئے (اے سائلو) میں اس کے حال کا کچھ تذکرہ تمہارے سامنے (اللہ کا بیان کیا ہوا) تلاوت کرتا ہوں۔
Top