Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں
(83 تا 98) اے محمد ﷺ مکہ والے آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں، آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو راستوں اور منزلوں کی معرفت عطا کی تھی ، چناچہ انہوں نے سفر کے لیے ایک راستہ اختیار کرلیا یہاں تک کہ جب غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو آفتاب ان کو سیاہ رنگ کے پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا اور اس موقع پر انہوں نے ایک کافر قوم دیکھی ، ہم نے بطور الہام کے کہا کہ ذوالقرنین یا تو ان کو قتل کرو، یہاں تک کہ یہ کلمہ لاالہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں یا ان کے ساتھ پہلے نرمی کا معاملہ کرو کہ ان کو معاف کر دو اور چھوڑ دو۔ ذوالقرنین نے عرض کیا بالکل ٹھیک لیکن جس نے ان میں سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا تو ہم اسے دنیا میں قتل کریں گے اور پھر وہ آخرت میں اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچایا جائے گا اور وہ اسے دوزخ کی سخت سزا دے گا۔ اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے آخرت میں بھی جنت ملے گی اور ہم بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے۔ پھر ذوالقرنین نے ممالک مشرقیہ کے فتح کرنے کے ارادہ سے مشرق کی طرف راہ لی تو طلوع آفتاب کے موقع پر پہنچ کر انہوں نے آفتاب کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے ہوئے دیکھا کہ جن کے لیے ہم نے آفتاب سے اوپر پہاڑ درخت کپڑے وغیرہ کی کوئی آڑ نہیں رکھی تھی کہ حق بات سے بالکل عاری قوم تھی اور اس قوم کو تارج وتاویل اور منسک کہا جاتا تھا۔ غرض کہ ذوالقرنین جیسا کہ منتہائے مغرب تک پہنچے تھے، اسی طرح سفر کرتے منتہائے مشرق تک پہنچے اور ان کو جو کچھ واقعات وغیرہ کی خبر تھی۔ ہمیں اس کی پوری خبر ہے، پھر ذوالقرنین فتوحات کرتے ہوئے مشرق کی سمت میں روم کی طرف ہوئے۔ یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان میں پہنچے تو ان پہاڑوں سے اس طرف ایک قوم کو دیکھا جو دوسروں کی بات نہیں سمجھتے تھے، انہوں نے بذریعہ ترجمان کہا کہ اے ذوالقرنین ! یاجوج اس سر زمین میں بڑا فساد مچاتے ہیں، یعنی ہمارئے تروتازہ میوؤں کا کھاجاتے ہیں اور خشک کو لے جاتے ہیں اور ہماری اولاد کو قتل کر ڈالتے ہیں اور ہمارے آدمیوں کو کھاجاتے ہیں۔ یاجوج بھی ایک آدمی کا نام تھا اور ماجوج بھی ایک شخص کا اور یہ دونوں یافث بن نوح کی اولاد میں سے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس قوم کی کثرت کی وجہ سے یہ اس کا نام پڑگیا۔ تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کے لیے کچھ ضروری چیزیں جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کچھ رکاوٹ بنادیں۔ ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جس بادشاہت اور مال میں میرے پروردگار نے مجھے اختیار دیا ہے اور عطا کی ہے وہ اس مزدوری سے بہت زیادہ ہے، انہوں نے عرض کیا سو آپ کس قسم کی حمایت چاہتے ہیں، ذوالقرنین نے جواب دیا ہاتھ پیروں اور اوزاروں سے میری مدد کرو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان خوب مضبوط دیوار بنائے دیتا ہوں تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے دونوں سروں کے خلاء کو پر کردیا تو ان کو حکم دیا دھونکو، چناچہ انہوں نے آگ جلا کر ان کو دھونکنا شروع کیا، یہاں تک کہ جب ان لوہے کی چادروں کو دھونکتے دھونکتے لال انگارا کردیا تو اس وقت حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں، چناچہ وہ تانبا اس پر ڈال دیا گیا۔ تو پھر یاجوج ماجوج اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نیچے کی طرف سے لگا سکتے تھے تب ذوالقرنین نے فرمایا کہ یہ دیوار کی تیاری میرے پروردگار کی ایک خاص رحمت ہے جس وقت یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت آئے گا تو وہ اسے ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بارے میں برحق ہے۔
Top