Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور آپ سے پوچھتے ہیں
عَنْ
: سے (بابت)
ذِي الْقَرْنَيْنِ
: ذوالقرنین
قُلْ
: فرمادیں
سَاَتْلُوْا
: ابھی پڑھتا ہوں
عَلَيْكُمْ
: تم پر۔ سامنے
مِّنْهُ
: اس سے۔ کا
ذِكْرًا
: کچھ حال
اور تجھ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کو کہہ اب پڑھتا ہوں تمہارے آگے اس کا کچھ احوال
خلاصہ تفسیر
ذوالقرنین کا پہلا سفر
اور یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کا حال پوچھتے ہیں (اس پوچھنے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ان کی تاریخ قریب قریب گم تھی اور اسی لئے اس قصبہ کے جو امور قرآن میں مذکور نہیں کہ وہ اصل قصہ سے زائد تھے ان امور کے متعلق آج تک اہل تاریخ میں اختلافات شدید پائے جاتے ہیں اسی وجہ سے قریش مکہ نے بمشورہ یہود مدینہ اس قصہ کا سوال کے لئے انتخاب کیا تھا اس لئے اس قصہ کی تفصیلات جو قرآن میں مذکور ہیں وہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کی واضح دلیل ہے) آپ فرما دیجئے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں (آگے حق تعالیٰ کی طرف سے اس کی حکایت شروع ہوئی کہ ذوالقرنین ایک ایسے جلیل القدر بادشاہ ہو گذرے ہیں کہ) ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو ہر قسم کا سامان (کافی) دیا تھا (جس سے وہ اپنے شاہی منصوبوں کو پورا کرسکیں) چناچہ وہ (بارادہ فتوحات ملک مغرب) ایک راہ پر ہو لئے (اور سفر کرنا شروع کیا) یہاں تک کہ جب (سفر کرتے کرتے درمیانی شہروں کو فتح کرتے ہوئے) غروب آفتاب کے موقع (یعنی جانب مغرب میں انتہائی آبادی) پر پہنچے تو آفتاب ان کو ایک سیاہ پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا (مراد اس سے غالباً سمندر ہے کہ اس کا پانی اکثر جگہ سیاہ نظر آتا ہے اور اگرچہ آفتاب حقیقۃ سمندر میں غروب نہیں ہوتا مگر سمندر سے آگے نگاہ نہ جاتی ہو تو سمندر ہی میں ڈوبتا ہوا معلوم ہوگا) اور اس موقع پر انہوں نے ایک قوم دیکھی (جن کے کافر ہونے پر اگلی آیت اما من ظلم دلالت کرتی ہے) ہم نے (بصورت الہام یا اس زمانے کے پیغمبر کے واسطے سے) یہ کہا کہ اے ذوالقرنین (اس قوم کے بارے میں دو اختیار ہیں) خواہ (ان کو ابتداء ہی سے قتل وغیرہ کے ذریعہ) سزا دو اور خواہ ان کے بارے میں نرمی کا معاملہ اختیار کرو (یعنی ان کو ایمان کی دعوت دو پھر نہ مانیں تو قتل کردو بغیر تبلیغ و دعوت کے ابتداء ہی قتل کرنے کا اختیار شاید اس لئے دیا گیا ہو کہ ان کو اس سے پہلے کسی ذریعہ سے دعوت ایمان پہنچ چکی ہوگی لیکن دوسری صورت یعنی پہلے دعوت پھر قتل کا بہتر ہونا اشارہ سے بیان کردیا کہ اس دوسری صورت کو اتخاذ حسن سے تعبیر فرمایا) ذوالقرنین نے عرض کیا کہ (میں دوسری ہی صورت اختیار کرکے پہلے ان کو دعوت ایمان دوں گا) لیکن (دعوت ایمان کے بعد) جو ظالم (یعنی کافر) رہے گا سو اس کو تو ہم لوگ (قتل وغیرہ کی) سزا دیں گے (اور یہ سزا تو دنیا میں ہوگی) پھر وہ (مرنے کے بعد) اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچا دیا جائے گا پھر وہ اس کو (دوزخ کی) سخت سزا دے گا اور جو شخص (دعوت ایمان کے بعد) ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لئے (آخرت میں بھی) بدلے میں بھلائی ملے گی اور ہم بھی (دنیا میں) اپنے برتاؤ میں اس کو آسان (اور نرم) بات کہیں گے (یعنی ان پر کوئی عملی سختی تو کیا کی جاتی زبانی اور قولی بھی کوئی سختی نہیں کی جائے گی)
معارف و مسائل
يَسْـــَٔـلُوْنَكَ (یعنی وہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں) یہ لوگ سوال کرنے والے کون ہیں روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قریش مکہ تھے جن کو یہودیوں نے رسول کریم ﷺ کی نبوت اور حقانیت کا امتحان کرنے کے لئے تین سوال بتلائے تھے روح کے متعلق اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں ان میں دو کا جواب آچکا ہے اصحاب کہف ابھی گذرا ہے اور روح کا سوال پچھلی سورة کے آخر میں گذر چکا ہے یہ تیسرا سوال ہے کہ ذوالقرنین کون تھا اور اس کو کیا حالات پیش آئے (بحر محیط)
ذوالقرنین کون تھے ؟ کس زمانے اور کس ملک میں تھے ؟ اور ان کو ذوالقرنین کہنے کی وجہ
ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین کیوں ہوا اس کی وجہ میں بیشمار اقوال اور سخت اختلافات ہیں بعض نے کہا کہ ان کی دو زلفیں تھیں اس لئے ذوالقرنین کہلائے بعض نے کہا کہ مشرق و مغرب کے ممالک پر حکمران ہوئے اس لئے ذوالقرنین نام رکھا گیا کسی نے یہ بھی کہا کہ ان کے سر پر کچھ ایسے نشانات تھے جیسے سینگ کے ہوتے ہیں بعض روایات میں ہے کہ ان کے سر پر دونوں جانب چوٹ کے نشانات تھے اس لئے ذوالقرنین کہا گیا واللہ اعلم مگر اتنی بات متعین ہے کہ قرآن نے خود ان کا نام ذوالقرنین نہیں رکھا بلکہ یہ نام یہود نے بتلایا ان کے یہاں اس نام کی شہرت ہوگی واقعہ ذوالقرنین کا جتنا حصہ قرآن کریم نے بتلایا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ۔
وہ ایک صالح عادل بادشاہ تھے جو مشرق و مغرب میں پہنچنے اور ان کے ممالک کو فتح کیا اور ان میں عدل و انصاف کی حکمرانی کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ہر طرح کے سامان اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے عطاء کردیئے گئے تھے انہوں نے فتوحات کرتے ہوئے تین اطراف میں سفر کئے مغرب اقصی تک اور مشرق اقصی تک پھر جانب شمال میں کوہستانی سلسلے تک اسی جگہ انہوں نے دو پہاڑوں کے درمیانی درے کو ایک عظیم الشان آہنی دیوار کے ذریعہ بند کردیا جس سے یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج سے اس علاقہ کے لوگ محفوظ ہوگئے۔
یہود نے جو سوال رسول کریم ﷺ کی حقانیت اور نبوت کا امتحان کرنے کے امتحان کرنے کے لئے پیش کیا تھا وہ اس جواب سے مطمئن ہوگئے انہوں نے مزید یہ سوالات نہیں کئے کہ ان کا نام ذوالقرنین کیوں تھا یہ کس ملک میں اور کس زمانے میں تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کو خود یہود نے بھی غیر ضروری اور فضول سمجھا اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم تاریخ و قصص کا صرف اتنا حصہ ذکر کرتا ہے جس سے کوئی فائدہ دین یا دینا کا متعلق ہو یا جس پر کسی ضروری چیز کا سمجھنا موقوف ہو اس لئے نہ قرآن کریم نے ان چیزوں کو بتلایا اور نہ کسی صحیح حدیث میں اس کی یہ تفصیلات بیان کی گئیں اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت کا سمجھنا ان چیزوں کے علم پر موقوف ہے اسی لئے سلف صالحین صحابہ وتابعین نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی
اب معاملہ صرف تاریخی روایات کا یا موجودہ تورات و انجیل کا رہ گیا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ موجودہ تورات و انجیل کو بھی مسلسل تحریفات نے آسمانی کتاب کی حیثیت میں نہیں چھوڑا ان کا مقام بھی اب زیادہ سے زیادہ ایک تاریخ ہی کا ہوسکتا ہے اور زمانہ قدیم کی تاریخ روایات زیادہ تر اسرائیلی قصوں کہانیوں سے ہی پُر ہیں جن کی نہ کوئی سند ہے نہ وہ کسی زمانے کے عقلاء وحکماء کے نزدیک قابل اعتماد پائی گئی ہیں حضرات مفسرین نے اس بھی اس معاملہ میں جو کچھ لکھا وہ سب انہی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے اسی لئے ان میں اختلافات بیشمار ہیں اہل یورپ نے اس زمانے میں تاریخ کو بڑی اہمیت دی اس پر تحقیق و تفتیش میں بلاشبہ بڑی محنت و کاوش سے کام لیا آثار قدیمہ کی کھدائی اور وہاں کے کتبات وغیرہ کو جمع کرکے ان کے ذریعہ قدیم واقعات کی حقیقت تک پہنچنے میں وہ کام انجام دیئے جو اس سے پہلے زمانہ میں نظر نہیں آتے لیکن آثار قدیمہ اور ان کے کتبات سے کسی واقعہ کی تائید میں مدد تو مل سکتی ہے مگر خود ان سے کوئی واقعہ پورا نہیں پڑھا جاسکتا اس کے لئے تو تاریخی روایات ہی بنیاد بن گئی ہیں اور ان معاملات میں زمانہ قدیم کی تاریخی روایات کا حال ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ ایک کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ قدیم و جدید علماء تفسیر نے بھی اپنی کتابوں میں یہ روایات ایک تاریخی حیثیت ہی سے نقل کی ہیں جن کی صحت پر کوئی قرآنی مقصد موقوف نہیں یہاں بھی اسی حیثیت سے بقدر ضرورت لکھا جاتا ہے اس واقعہ کی پوری تفتیش و تحقیق مولانا حفظ الرحمن صاحب ؒ نے اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھی ہے تاریخی ذوق رکھنے والے حضرات اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
بعض روایات میں ہے کہ پوری دنیا پر سلطنت و حکومت کرنے والے چار بادشاہ ہوئے ہیں دو مومن اور دو کافر مومن بادشاہ حضرت سلیمان ؑ اور ذوالقرنین ہیں اور کافر نمرود اور بخت نصر ہیں
ذوالقرنین کے معاملہ میں یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس نام سے دنیا میں متعدد آدمی مشہور ہوئے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہر زمانے کے ذی القرنین کے ساتھ لقب سکندر بھی شامل ہے۔
حضرت مسیح ؑ سے تقریباً تین سو سال پہلے ایک بادشاہ سکندر کے نام سے معروف و مشہور ہے جس کو سکندر یونانی مقدونی رومی وغیرہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جس کا وزیر ارسطو تھا اور جس کی جنگ دارا سے ہوئی اور اسے قتل کرکے اس کا ملک فتح کیا سکندر کے نام سے دنیا میں معروف ہونے والا آخری شخص یہی تھا اسی کے قصے دنیا میں زیادہ مشہور ہیں بعض لوگوں نے اس کو بھی قرآن میں مذکور ذوالقرنین کہہ دیا یہ سراسر غلط ہے کیونکہ یہ شخص آتش پرست مشرک تھا قرآن کریم نے جس ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے ان کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مومن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور خود قرآن کی نصوص اس پر شاہد ہیں۔
حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بحوالہ ابن عساکر اس کا پورا نسب نامہ لکھا ہے جو اوپر جا کر حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ سے ملتا ہے اور فرمایا کہ یہی وہ سکندر ہے جو یونانی مصری مقدونی کے ناموں سے معروف ہے جس نے اپنے نام پر شہر اسکندریہ آباد کیا اور روم کی تاریخ اسی کے زمانے سے چلتی ہے اور یہ سکندر ذی القرنین اول سے ایک طویل زمانے کے بعد ہوا ہے جو دو ہزار سال سے زائد بتلایا جاتا ہے اسی نے دارا کو قتل کیا اور شاہان فارس کو مغلوب کرکے ان کا ملک فتح کیا مگر یہ شخص مشرک تھا اس کو قرآن میں مذکور ذوالقرنین قرار دینا سراسر غلطی ہے ابن کثیر کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔
فاماذالقرنین الثانی فھو اسکندر بن فیلبس بن مصریح بن برس بن مبطون بن رومی بن نعطی بن یونان بن یافث بن بونہ بن شرخون بن رومہ بن شرخط بن توفیل بن رومی بن الاصفر بن یقز بن العیص بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کذا انسبہ الحافظ ابن عساکر فی تاریخہ المقدونی الیونانی المصری بانی الاسکندریۃ الذی یؤ رخ بایامہ الروم وکان متأخرا عن الاول بدھر طویل وکان ھذا قبل المسیح بنحو من ثلثمائۃ سنۃ وکان ارطا طالیس الفیلسوف وزیرہ و ھوالذی قتل دارا واذل ملوک الفرس واوطأ ارضہم وانما نبھنا علیہ لان کثیرا من الناس یعتقد انھما واحد وان المذکور فی القرآن ھوالذی کان ارطا طالیس وزیرہ فیقع بسبب ذلک خطاء کبیر و فساد عریض طویل فان الاول کان عبدا مؤ منا صالحا وملکا عادلا وکان وزیرہ الخضر وقد کان نبیا علی ماقررناہ قبل ھذا واما الثانی فکان مشرکا کان وزیرہ میلسوفا وقد کان بین زمانیھما ازید من الفے سنۃ فاین ھذا من ہذا لایستویان ولا یشتبھان الاعلی غبی لایعرف حقائق الامور البدایۃ والنھایۃ ص 106 ج 2)
حدیث و تاریخ کے امام ابن کثیر کی اس تحقیق سے ایک تو یہ مغالطہ رفع ہوا کہ یہ اسکندر جو حضرت مسیح ؑ سے تین سو سال پہلے گذرا ہے اور جس کی جنگ دارا اور ملوک فارس سے ہوئی اور ربانی اسکندریہ ہے یہ وہ ذوالقرنین نہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے یہ مغالطہ بعض اکابر مفسرین کو بھی لگا ہے ابوحیان نے بحر محیط میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اسی کو ذوالقرنین مذکور فی القرآن کہہ دیا ہے۔
دوسری بات وانہ کان نبیا کے جملے سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن کثیر کے نزدیک ان کا نبی ہونا راجح ہے اگرچہ جمہور کے نزدیک راجح وہ قول ہے جو خود ابن کثیر نے بروایت ابی الطفیل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ نہ وہ نبی تھے نہ فرشتہ بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے اسی لئے بعض علماء نے یہ توجیہ کی کہ انہ کان کی ضمیر ذوالقرنین کی طرف نہیں خضر ؑ کی طرف راجع ہے وہوالاقرب۔
اب مسئلہ یہ رہتا ہے کہ پھر وہ ذوالقرنین جس کا قرآن میں ہے کون ہیں اور کس زمانے میں ہوئے ہیں اس کے متعلق بھی علماء کے اقوال بہت مختلف ہیں ابن کثیر کے نزدیک ان کا زمانہ اسکندر یونانی مقدونی سے دوہزار سال پہلے حضرت الخلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کا زمانہ ہے اور ان کے وزیر حضرت خضر ؑ تھے ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں سلف صالحین سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ذوالقرنین پیادہ پا حج کے لئے پہنچے جب حضرت ابراہیم ؑ کو ان کے آنے کا علم ہوا تو مکہ سے باہر نکل کر استقبال کیا اور حضرت خلیل ؑ نے ان کے لئے دعاء بھی کی اور کچھ وصیتیں اور نصیحتیں بھی ان کو فرمائیں (البدایہ ص 108 ج 2) اور تفسیر ابن کثیر میں بحوالہ ازرقی نقل کیا ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ طواف کیا پھر قربانی دی۔
اور ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ عن القرون الخالیۃ میں کہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جن کا ذکر قرآن میں ہے ابوبکر بن سمی بن عمر بن افریقیس حمیری ہے جس نے زمین کے مشارق و مغارب کو فتح کیا اور تبع حمیری یمنی نے اپنے اشعار میں اس پر فخر کیا ہے کہ میرے دادا ذوالقرنین مسلمان تھے ان کے اشعار یہ ہیں۔
قد کان ذوالقرنین جدی مسلما ملکا علافی الارض غیر مبعد
بلغ المشارق والمغارب یبتغی اسباب ملک من کریم سید
یہ روایت بحر محیط میں ابو حیان نے نقل کی ہے ابن کثیر نے بھی البدایہ والنہایہ میں اس کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ یہ ذوالقرنین تبابعہ یمن میں سب سے پہلا تبع ہے اور یہی وہ شخص ہے جس نے بیر سبع کے بارے میں حضرت ابراہیم ؑ کے حق میں فیصلہ دیا تھا (البدایہ ص 105 ج 2) ان تمام روایات میں ان کی شخصیت اور نام و نسب کے بارے میں اختلاف ہونے کے باوجود ان کا زمانہ حضرت ابراہیم ؑ کا زمانہ بتلایا گیا ہے۔
اور مولانا حفظ الرحمن صاحب نے اپنی کتاب قصص القرآن میں جو ذوالقرنین کے متعلق بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ذوالقرنین مذکور فی القرآن فارس کا وہ بادشاہ ہے جس کو یہودی خورس یونانی سائرس فارسی گورش اور عرب کے خسرو کہتے ہیں جس کا زمانہ حضرت ابراہیم ؑ سے بہت بعد انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل میں سے دانیال کا زمانہ بتلایا جاتا ہے جو سکندر مقدونی قاتل دارا کے زمانے کے قریب قریب ہوجاتا ہے مگر مولانا موصوف نے بھی ابن کثیر وغیرہ کی طرح اس کا شدت سے انکار کیا ہے کہ ذوالقرنین وہ سکندر مقدونی جس کا وزیر ارسطو تھا وہ نہیں ہوسکتا وہ مشرک آتش پرست تھا یہ مومن صالح تھے۔
مولانا موصوف کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی سورة بنی اسرائیل میں جو دو مرتبہ بنی اسرائیل کے شر و فساد میں مبتلا ہونے اور دونوں مرتبہ کی سزا کا ذکر تفصیل سے آیا ہے اس میں بنی اسرائیل کے پہلے فساد کے موقع پر جو قرآن کریم نے فرمایا ہے اولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ (یعنی تمہارے فساد کی سزا میں ہم مسلط کردیں گے تم پر اپنے کچھ ایسے بندے جو بڑی قوت و شوکت والے ہوں گے وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے) اس میں یہ قوت و شوکت والے لوگ بخت نصر اور اس کے اعوان ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں چالیس ہزار اور بعض روایات میں ستر ہزار بنی اسرائیل کو قتل کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل کو قید کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا کر بابل لے گیا اور اس کے بعد جو قرآن کریم نے فرمایا ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ (یعنی ہم نے پھر لوٹا دیا تمہارے غلبہ کو ان پر) یہ واقعہ اسی کیخسرو خورس بادشاہ کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوا یہ مومن صالح تھا اس نے بخت نصر کا مقابلہ کرکے اس کے قیدی بنی اسرائیل کو اس کے قبضہ سے نکالا اور دوبارہ فلسطین میں آباد کیا بیت المقدس کو جو ویران کردیا تھا اس کو بھی دوبارہ آباد کیا اور بیت المقدس کے خزائن اور اہم سامان جو بخت نصر یہاں سے لے گیا تھا وہ سب واپس بنی اسرائیل کے قبضہ میں دیئے اس لئے یہ شخص بنی اسرائیل (یہود) کا نجات دہندہ ثابت ہوا۔
یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہود مدینہ نے جو امتحان نبوت کے لئے قریش مکہ کے واسطے سوالات متعین کئے ان میں ذوالقرنین کے سوال کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ یہود اس کو اپنا نجات دہندہ مان کر اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
مولانا حفظ الرحمن صاحب نے اپنی اس تحقیق پر موجودہ تورات کے حوالہ سے انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں سے پھر تاریخی روایات سے اس پر کافی شواہد پیش کئے ہیں جو صاحب مزید تحقیق کے درپے ہوں وہ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں میرا مقصد ان تمام روایات کے نقل کرنے سے صرف اتنا تھا کہ ذوالقرنین کی شخصیت اور ان کے زمانے کے بارے میں علماء امت اور ائمہ تاریخ و تفسیر کے اقوال سامنے آجائیں ان میں سے راجح کس کا قول ہے یہ میرے مقصد کا جزء نہیں کیونکہ جن امور کا نہ قرآن نے دعوی کیا نہ حدیث نے ان کو بیان کیا ان کے معین ومبین کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر نہیں اور ان میں جو قول بھی راجح اور صحیح قرار پائے مقصد قرآنی ہر حال میں حاصل ہے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم آگے آیات کی تفسیر دیکھئے۔
قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا اس میں یہ قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ذکرہ کا مختصر لفظ چھوڑ کر ذِكْرًا کے دو کلمے کیوں اختیار کئے غور کیجئے تو ان دو کلموں میں اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ قرآن نے ذوالقرنین کا پورا قصہ اور اس کی تاریخ ذکر کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک حصہ بیان کرنے کے لئے فرمایا جس پر حرف من اور ذکرا کی تنوین بقواعد عربیت شاہد ہے اوپر جو تاریخی بحث ذوالقرنین کے نام و نسب اور زمانے وغیرہ کی لکھی گئی ہے قرآن کریم نے اس کو غیر ضروری سمجھ چھوڑ دینے کا پہلے ہی اظہار فرما دیا ہے۔
Top