Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے نصیحت (کی کتاب یعنی تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکو کار بندے ملک کے وارث ہوں گے
(21:105) الزبور۔ اس کا مادہ زبر ہے الزبرۃ لوہے کی بڑی سل کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع زبر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے اتونی زبر الحدید (18:96) لوہے کی سلیں ہمارے پاس لائو۔ کبھی زبر کا لفظ بالوں کے گچھے پر بولا جاتا ہے اس کی جمع زبر آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پاری کی ہوئی چیز کو بھی زبر کہا جاتا ہے ۔ مثلاً فتقطعوا امرہم بینہم زبرا۔ (23:53) پھر لوگوں نے آپس میں (پھوٹ کر کے) اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ زبرت الکتاب۔ میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا۔ ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہا جاتا ہے۔ لیکن عرف عام میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کا نام ہے جو حضرت دائود (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ قرآن مجید میں ہے واتینا داود زبورا (4:163) اور ہم نے دائود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ آیت ہذا میں اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک یہاں الزبور سے مراد حضرت دائود پر نازل کی گئی کتاب ہے۔ بعض کے نزدیک یہاں یہ بطور اسم جنس استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد کل کتب آسمانی ہیں۔ یہی قول راجح ہے۔ الذکر۔ اس کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد توراۃ ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ الارض۔ سے بھی مختلف علماء نے مختلف مراد لی ہے بعض کے نزدیک یہ ہماری زمین ہے اور یہ مؤمنین کے حق میں ایک بشارت دنیوی ہے۔ اور ایک گروہ علما کا قائل ہے کہ الارض سے مراد ملک شام ہے اور یہ کہ یہ پیشن گوئی عہد صحابہ میں پوری ہو کر رہی۔ لیکن اکثریت علماء کی اس طرف گئی ہے کہ الارض سے مراد ارض الجنۃ ہے قرآن مجید میں الارض کا اطلاق ارض جنت پر بھی ہوا ہے مثلاً الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشاء (39:74) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہمیں اس زمین کا وارث کردیا۔ کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔ الزبور۔ الذکر۔ اور الارض کی تشریح بالا کے بعد آیت کا مطلب ہوا :۔ لوح محفوظ میں لکھ دینے کے بعد ہم نے کتب آسمانی میں بھی (یہ قاعدہ) لکھ دیا کہ زمین بہشت کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔
Top