Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 92
اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً١ۖ٘ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
اِنَّ : بیشک هٰذِهٖٓ : یہ ہے اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک (یکتا) ڮ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو
(21:92) امۃ۔ امت۔ جماعت۔ مدت۔ طریقہ۔ دین۔ ہر وہ جماعت جس میں کسی قسم کا کوئی رابطہ اشتراک موجود ہوا سے امت کہتے ہیں خواہ یہ اتحاد مذہبی وحدت کی بناء پر ہو۔ یا جغرافیائی اور عصری وحدت کی بنا پر اور خواہ اس رابطہ میں امت کے اپنے اختیار کو دخل ہو یا نہ ہو امت کے مجازی معنی طریقہ ودین کے ہیں۔ عرب والے بولتے ہیں فلان لا امۃ لہ یعنی فلاں کا کوئی طریقہ یا دین نہیں۔ یہاں اس آیت میں مراد دین ہی ہے۔ ان ھذہ امتکم تحقیق یہی تمہارا دین (دین توحید) ہے یعنی تمام متذکرہ بالا انبیاء کا یہی عقیدہ توحید رہا ہے۔ امۃ واحدۃ نصب بوجہ امتکم سے حال کی وجہ سے ہے۔ یہاں خطاب کس سے ہو رہا ہے اس کے متعلق دو اقوال ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ خطاب مسلمانوں سے ہے اور ھذہ سے مراد امت مسلمہ ہے۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ خطاب عام ہے ساری نسل انسانی کے لئے اور طریقہ سے مراد طریق انبیاء مذکور ہے۔
Top