Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 90
وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ١ؕ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَمَنْ : اور جو جَآءَ : آیا بِالسَّيِّئَةِ : برائی کے ساتھ فَكُبَّتْ : اوندھے ڈالے جائیں گے وُجُوْهُهُمْ : ان کے منہ فِي النَّارِ : آگ میں هَلْ : کیا نہیں تُجْزَوْنَ : بدلہ دئیے جاؤگے تم اِلَّا : مگر۔ صرف مَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور جو برائی لے کر آئے گا تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے تم کو تو ان ہی اعمال کا بدلہ ملے گا جو تم کرتے رہے ہو
(27:90) السیئۃ برائی، گناہ، فعل بد۔ الحسنۃ کی ضد ہے ملاحظہ ہو آیت مندرجہ بالا (27:89) سیئۃ اصل میں سیوأۃ تھا۔ واؤ کو یاء سے بدل کر یاء کو یاء میں مدغم کیا گیا ہے۔ فکبت میں فاء سببیہ ہے کبت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب (یہاں وجوہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ کب یکب (نصر) کب اوندھے منہ گرنا یا گرانا کبت وہ اوندھے منہ گرائے جائیں گے۔ وجوھھم مضاف مضاف الیہ ان کے چہرے۔ یہاں وجوھھم سے مراد انفسھم ہے۔ جیسا کہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ (2:195) سے مراد بانفسکم ہے۔ ہل حرف استفہام ہے اور تصدیق کی طلب کے لئے آتا ہے یہاں اس آیت میں استفہام سے مقصود ہی نفی ہے اس لئے نفی کے معنوں میں آیا ہے اور اس کی خبر پر الا آیا ہے۔ ہل تجزون الا ما کنتم تعملون۔ تم کو بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ مگر اس کا جس کا تم نے ارتکاب کیا۔ یعنی تمہیں صرف تمہارے کئے کی سزا مل رہی ہے اور جگہ اسی معنی میں ہے ہل جزاء الاحسان الا الاحسان (55:60) احسان کا بجز احسان کے نہیں ہے۔ تجزون : مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ جزاء مصدر باب ضرب تم بدلہ دیئے جاؤ گے۔ تم جزاء دئیے جاؤ گے۔
Top