Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 38
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ
حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَنَا : جب وہ آئے گا ہمارے پاس قَالَ : کہے گا يٰلَيْتَ : اے کاش بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكَ : اور تمہارے درمیان بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ : دوری ہوتی دو مشرقوں کی فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ : تو بہت برا ساتھی (نکلا)
یہاں تک کہ جب ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا کہ اے کاش مجھ میں اور تجھ میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا ! تو برا ساتھی ہے
(43:38) اس آیت میں اور آیت 36 میں شیطان اور جس پر اس کو مقرر کیا گیا تھا اس کے لفظی معنی کے لحاظ سے دونوں کے لئے الگ الگ صیغہ واحد استعمال ہوا ہے۔ جاء نا۔ ماضی بمعنی مستقبل۔ یہاں تک کہ جب ایسا شخص جس پر شیطان کو مقرر کیا گیا تھا ہمارے پاس آئے گا۔ (روز قیامت) قال۔ یعنی کافر جو ذکر اللہ (قرآن مجید) کی طرف سے اندھا ہوگیا تھا اپنے شیطان سے کہے گا۔ یلیت : یاء حرف نداء قرین منادی (محذوف) لیت حرف مشبہ بفعل ۔ تمنا کے لئے آیا ہے۔ اے کاش۔ بعد المشرقین : مضاف مضاف الیہ ۔ بعد دوری، فاصلہ۔ المشرقین دونوں مشرق۔ بمعنی مشر ق و مغرب، عرب کی عادت ہے کہ جب دو مقابل چیزوں کو بیان کرنا ہو تو ان میں جو زیادہ غالب ہو اسی کو تثنیہ کی صورت میں بیان کردیتے ہیں اس کو تسمیۃ الشیئین ای المتقابلین باسم احدھما کہتے ہیں۔ مثلا الموصل و الجزیرۃ کو الموصلین، الشمس والقمر کو القمران۔ ابوبکر و عمر کو العمران کہیں گے۔ اے ساتھی کاش : میرے اور تیرے درمیان (دنیا میں) اتنا فاصلہ ہوتا جتنا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان تھا۔ فبئس القرین : ای فبئس القرین انت : تو برا ساتھی تھا۔
Top