Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 9
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ؕ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
لِّتُؤْمِنُوْا : تاکہ تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول وَتُعَزِّرُوْهُ : اور اس کی مدد کرو وَتُوَقِّرُوْهُ ۭ : اور اس کی تعظیم کرو وَتُسَبِّحُوْهُ : اور اس (اللہ) کی تسبیح کرو بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا : صبح اور شام
تاکہ (مسلمانو ! ) تم لوگ خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اسکو بزرگ سمجھو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو
(48:9) لتؤمنوا باللّٰہ ورسولہ میں لام تعلیل کا ہے۔ یعنی آپ کا رسول بنا کر بطور شاہد، مبشر، نذیر بھیجنا بدیں وجہ تھا۔ کہ اے لوگو ! تم ایمان لاؤ تؤمنوا مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ایمان (افعال) مصدر سے۔ نون اعرابی عامل کے سبب سے حذف ہوگیا۔ ورسولہ ای وبرسولہ اور اس کے رسول پر (بھی ایمان لاؤ) اس کا عطف جملہ سابقہ لتؤمنوا باللّٰہ پر ہے۔ وتعزروہ۔ اس جملہ کا عطف بھی جملہ لتؤمنوا باللّٰہ پر ہے اور اسی طرح اگلے دو جملوں کا عطف بھی اسی جملہ پر ہے۔ تعزروا مجارع جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی عامل کے سبب سے حذف ہوگیا تعزیر (تفعیل) مصدر بمعنی ادب اور تعظیم کے ساتھ مدد کرنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب (تاکہ) تم اس کی مدد کرو۔ اس کو قوت دو ۔ تعزیر کے معنی شرعی حد سے کم سزا دینے کے بھی آتے ہیں لیکن در حقیقت یہ معنی بھی اول معنی ہی کی طرف لوٹتے ہیں کیونکہ تعزیر دینے کا مقصد ہوتا ہے ادب سکھانا۔ اور ادب سکھانا بھی مدد کرنے میں داخل ہے گویا اس صورت میں انسان کی مدد اس طرح کی ہے کہ جو چیز اس کے لئے مضر ہے اس سے اس کو نقصان پہنچائیں ان کا قلع قمع کیا جائے۔ بعض کے نزدیک یہ حروف اضداد میں سے ہے ۔ اور بمعنی التعظیم والتعذیب ہے ۔ ای انہ من حروف الاضداد یاتی بمعنی التعظیم والتعدیب۔ لہٰذا تعزیر بمعنی سزا، تنبیہ، سرزنش، واحد مؤنث اور تعزیرات جمع مستعمل ہے۔ ازتعریزات پاکستان (یعنی پاکستاب میں فوجداری قانون کی سزائیں) ایک مشہور قانونی کتاب ہے) ۔ وتوقروہ : توقروا مضارع جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی عامل کے سبب گرگیا۔ توقیر (تفعیل) مصدر سے۔ جس کے معنی تعظیم کرنا اور ادب رکھنا کے ہیں۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب، اور تاکہ تم اس کی توقیر کرو۔ اس کا ادب کرو۔ وتسبحوہ۔ اور تاکہ تم اس کی تسبیح بیان کرو۔ اس کی پاکی بیان کرو۔ بکرۃ واصیلا : صبح کے وقت اور شام کے وقت۔ (یعنی صبح وشام ہر وقت) منصوب بوجہ مفعول فیہ۔ فائدہ : علامہ قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ تعزروہ اور توقروہ میں ضمیر مفعول کا مرجع حضور ﷺ کی ذات گرامی ہے یہاں وقف تام ہے۔ اور تسبحوا سے نیا سلسلہ کلام شروع ہوتا ہے اور یہاں مفعول کا مرجع اللہ کی ذات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کیا کرو اور امام بغوی اور بعض دیگر علماء اسی طرف گئے ہیں ۔ لیکن مفسرین کے ایک دوسرے گروہ نے تمام ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے ان کے نزدیک ایک ہی سلسلہ کلام میں ضمیروں کے دو الگ الگ مرجع قرار دینا جب کہ اس کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے درست نہیں معلوم ہوتا۔ علامہ زمخشری (رح) لکھتے ہیں الضمائر للّٰہ عزوجل (ہرسہ مفعولی) ضمائر اللہ عزوجل کے لئے ہیں۔ علامہ مودودی بھی اسی زمرہ میں ہیں۔
Top