Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ١ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُبَايِعُوْنَكَ : آپ سے بیعت کررہے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں کہ يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ : وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں يَدُ اللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ فَوْقَ : اوپر اَيْدِيْهِمْ ۚ : ان کے ہاتھوں کے فَمَنْ : پھر جس نے نَّكَثَ : توڑ دیا عہد فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَنْكُثُ : اس نے توڑدیا عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ : اپنی ذات پر وَمَنْ اَوْفٰى : اور جس نے پورا کیا بِمَا عٰهَدَ : جو اس نے عہد کیا عَلَيْهُ اللّٰهَ : اللہ پر، سے فَسَيُؤْتِيْهِ : تو وہ عنقریب اسے دیگا اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا
(18:10) یبایعونک۔ مضارع جمع مذکر غائب مبایعۃ (مفاعلۃ) مصدر بیع مادہ۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ (جو) تیری بیعت کر رہے تھے یا کرتے ہیں ۔ انما : ان حرف مشبہ بالفعل اور ما کافہ سے مرکب ہے۔ بیشک ، تحقیق، سوائے اس کے نہیں۔ نکث۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ نکث مصدر (باب ضرب و نصر) بمعنی (عہد) توڑنا۔ فسخ کرنا۔ (کمبل یا سوت) اوھیڑنا۔ ینکث علی نفسہ وہ عہد کو اپنے نفس کے نقصان کے لئے ہی توڑتا ہے۔ یعنی اس کی عہد شکنی کا وبال اسی کی جان پر ہوگا۔ ای فلا یعود ضرر نکثہ الاعلیہ۔ اوفی۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ایفاء (افعال) مصدر۔ (اور جس نے) ایفاء وعدہ کیا۔ عہد کو پورا کیا۔ یعنی بیرت کے وعدہ پر قائم رہا۔ ماعاھد علیہ اللّٰہ۔ اس عہد کو جو اس نے اللہ سے کیا۔ فائدہ : علیہ کے اعراب کے متعلق مختلف اقوال مفسرین نے بیان کئے ہیں ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :۔ (1) علیہ۔ اس پر ۔ اس کے اوپر علی حرف جر ہ ضمیر واحد مذکر غائب مجرور۔ علیہ کی ہاء پر واؤ کو حذف کرنے کے بعد ضمہ اس لئے رہنے دیا گیا کہ اللّٰہ کا لفظ پر کرکے پڑھا جاوے۔ اصل میں ضمیر ھو تھی (لغات القرآن) (2) علامہ آلوسی اس کے اعراب کے متعلق دو وجوہات بتاتے ہیں۔ (ا) یہ کہ اس خاص موقعہ پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار موصود تھا۔ جس کے ساتھ عہد استوار کیا جا رہا تھا۔ اس لئے علیہ کی بجائے علیہ مناسب تھا۔ (ب) یہ کہ علیہ میں ہ دراصل ھو کی قائم مقام ہے اور اس اصلی اعراب - ہی تھا نہ کہ - لہٰذا یہاں اصلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ (تفہیم القرآن) (3) جمہور نے اسے علیہ (ہاء کے ضمہ کے ساتھ) پڑھا ہے۔ (روح المعانی) فسیؤتیہ :جواب شرط کے لئے ہے۔ سیؤتی : س مستقبل قریب کے لئے ہے۔ یؤتی۔ مضارع واحد واحد مذکر غائب ایتاء (افعال) مصدر۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ وہ اس کو دیتا ہے۔ وہ اس کو عنقریب دے گا۔ اجرا عظیما۔ موصوف و صفت، عظیم اجر ، یعنی بہشت، جنت، مفعول یؤتی کا ۔
Top