Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم سب کو مقدور ہے
(51:47) والسماء بنینھا۔ ای بنینا السماء مفعول کو فعل سے پہلے لایا گیا ہے ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب السامء کی طرف راجع ہے۔ بنینا ماضٰ جمع متکلم ۔ بنی یبنی بناء (باب ضرب) مصدر۔ ہم نے بنایا۔ باید : قوت سے، طاقت سے، یہاں باید ید کی جمع نہیں ہے بلکہ اویئید (باب ضرب) کا مصدر ہے اس بھی اس کا مصدر ہے بمعنی مضبوط ہونا ۔ سخت ہونا۔ اسی مادہ ای و سے باب تفعیل اید یؤید تایید بمعنی قوت دینا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :۔ ایدتک بروح القدس (5:110) میں نے تمہیں روح القدس سے تقویت دی۔ اور فرمایا :۔ واللہ یؤید بنصرہ من یشاء (3:23) اللہ جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے۔ صاحب اضواء البیان لکھتے ہیں کہ :۔ فمن ظن انھا جمع ید فی ھذہ الایۃ فقد ظلا فاحشا والمعنی : المسماء بنینھا بقوۃ : ترجمہ ہوگا۔ اور آسمان کو ہم نے اپنی قوت سے بنایا۔ موسعون : اسم فاعل مذکر ایساع (افعال) مصدر۔ وسع مادہ، طاقت و مقدرت رکھنے والے، وسعت والے۔ مقدور والے۔ فائدہ : صاحب تفہیم القرآن رقمطراز ہیں کہ :۔ اصل لفظ ہیں انا لموسعون : موسع کے معنی طاقت و مقدرت رکھنے والے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ اور وسیع کرنے والے کے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی طاقت اور زور سے بنایا ہے ۔ اور اس کی تخلیق ہماری مقدرت سے باہر نہ تھی۔ پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آگیا کہ ہم تمہیں دوبارہ پیدا نہ کرسکیں گے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے :۔ کہ اس عظیم کائنات کو بس ہم ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے بلکہ مسلسل اس میں توسیع کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔ ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے۔
Top