Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 9
یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآءُ مَوْرًاۙ
يَّوْمَ : جس دن تَمُوْرُ السَّمَآءُ : پھٹ جائے گا۔ لرزے گا، آسمان مَوْرًا : لرزنا۔ ڈگمگانا
جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر
(52:9) یوم تمور السمائمورا۔ یوم مفعول فیہ ہے تمور مضارع واحد مؤنث غائب : مور (باب نصر) مصدر۔ بمعنی پھرنا۔ تیز چلنا، وہ تیز چلتی ہے یا چلے گی۔ وہ پھٹ جائے گی۔ وہ لرزے گی۔ مورا مفعول مطلق تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں کہ کبھی بڑھے کبھی پیچھے ہٹے۔ اور اس طرح جھولے جس طرح کہ تیز جھکڑ میں لمبی کھجوریں جھومتی ہیں ۔ تو اس حالت کو بیان کرنے کیلئے ماریمور کے لفظ استعمال کئے جاتے ہیں مقصدیہ بتانا ہے کہ وسیع عریض آسمان جس کو اپنے مقام سے بال برابر کبھی سرکتے نہیں دیکھا گیا کبھی اضطرابی حرکت اس میں رونما نہیں ہوئی وہ اس روز ایک معمولی اور ہلکی چیز کی مانند ڈول رہا ہوگا جھول رہا ہوگا جس دن آسمان بڑی بری طرح تھرا تھرا رہا ہوگا۔
Top