Anwar-ul-Bayan - Al-Hadid : 8
وَ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ۚ وَ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَ قَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَمَا لَكُمْ : اور کیا ہے تمہارے لیے لَا تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ۚ : نہیں تم ایمان لاتے ہو اللہ پر وَالرَّسُوْلُ : اور رسول يَدْعُوْكُمْ : بلاتا ہے تم کو لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ : تاکہ تم ایمان لاؤ اپنے رب پر وَقَدْ اَخَذَ : حالانکہ تحقیق اس نے لیا ہے مِيْثَاقَكُمْ : پختہ عہد تم سے اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اگر ہو تم ایمان لانے والے
اور تم کیسے لوگ ہو کہ خدا پر ایمان نہیں لاتے ؟ حالانکہ (اس کے) پیغمبر تمہیں بلا رہے ہیں کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ اور اگر تم کو باور ہو تو وہ تم سے (اس کا) عہد بھی لے چکا ہے
(57:8) مالکم۔ تم کو کیا عذر ہے۔ تم کیسے ہو۔ تم کو کیا ہوگیا ہے۔ تمہارے لئے کیا سبب ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وما لکم الا تنفقوا فی سبیل اللہ (57:10) اور تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہو۔ اور دوسری جگہ ہے :۔ وقالوا مال ھذا الرسول یا کل الطعام (25:7) اور کہتے ہیں یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے۔ وما لکم لا تؤمنون باللہ۔ اور تم کو کیا ہوگیا ہے کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ والرسول یدعوکم لتؤمنوا بربکم : جملہ حالیہ ہے۔ حالانکہ رسول تم کو تمہارے رب پر ایمان لانے کے لئے (برابر) بلا رہا ہے۔ لتومنوا میں لام تعلیل کا ہے۔ یہ اصل میں تؤمنون تھا (مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ایمان مصدر سے) نون اعرابی عامل کی وجہ سے گرگیا۔ وقد اخذ میثاقکم واؤ عاطفہ ہے اور جملہ حالیہ ہے اور اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور وہ تم سے عہد بھی لے چکا ہے ای وقیل ذلک قد اخذ اللہ میثاقکم حین اخرجکم من ظھر ادم (علیہ السلام) بان اللہ ربکم لا الہ لکم سوأہ۔ اور اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے تم سے عہد لے رکھا تھا جب اس نے تم کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے برآمد کیا۔ (اور کہا کہ) اللہ تعالیٰ ہی تمہارا رب ہے اور اس کے سوا تمہارا کوئی رب نہیں۔ قرآن مجید میں ہے :۔ الست بربکم قالوا بلی شھدنا (7:172) (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں َ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے۔ میثاقکم مضاف مضاف الیہ۔ دونوں مل کر اخذ کا مفعول ۔ تمہارا میثاق، پختہ۔ عہد۔ قول و قرار جس پر قسم کھائی گئی ہو۔ وثق یثق وثوق (باب ضرب) مصدر اعتماد کرنا۔ مطمئن ہونا۔ الوثاق والوثاق اس زنجیر یا رسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کر باندھ دیا جائے۔ اور او ثقہ (باب افعال) زنجیر میں جکڑنا۔ رسی سے کس کر باندھنا۔ میثاق وہ عہد جو قسموں یا شرطوں سے جکڑ کر کیا گیا ہو۔ بمعنی پختہ و مضبوط عہد۔ قرآن مجید میں ہے :۔ ولا یوثق وثاقہ احد (89:26) اور نہ کوئی ایسا جکڑنا جکڑے گا۔ ان کنتم مؤمنین ۔ جملہ شرط ہے اور جواب شرط محذوف۔ (1) اگر تم ایمان لانا چاہتے ہو تو تردد میں مت پڑو اور بغیر کسی تردد کے ایمان لے آؤ (السیر التفاسیر) (2) تم جو اپنے خیال میں اللہ پر ایمان لانے کے مدعی ہو اگر تم واقعی مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ (تفسیر مظہری)
Top