Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا : صرف الصَّدَقٰتُ : زکوۃ لِلْفُقَرَآءِ : مفلس (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : مسکین (جمع) محتاج وَالْعٰمِلِيْنَ : اور کام کرنے والے عَلَيْهَا : اس پر وَالْمُؤَلَّفَةِ : اور الفت دی جائے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَفِي : اور میں الرِّقَابِ : گردنوں (کے چھڑانے) وَالْغٰرِمِيْنَ : اور تاوان بھرنے والے، قرضدار وَفِيْ : اور میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر فَرِيْضَةً : فریضہ (ٹھہرایا ہوا) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
صدقات صرف فقراء کے لئے اور مساکین کے لئے اور ان کارکنوں کے لئے ہیں جو صدقات پر متعین ہیں اور ان لوگوں کے لئے جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو اور گردنوں کے چھڑانے میں، اور قرض داروں کے قرضہ میں اور اللہ کے راستہ میں، اور مسافروں کے لئے ہیں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے اور اللہ علیم ہے اور حکیم ہے۔
آیت کا شان نزول : 1:۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے (غنیمت کا مال) مانگا اور آپ (اس وقت) مال تقسیم فرما رہے تھے۔ آپ نے اس سے اعراض فرمایا اور تقسیم فرماتے رہے اس نے کہا کیا آپ بکریاں چرانے والوں کو بھی دیں گے ـ؟ اللہ کی قسم آپ نے انصاف نہیں کیا آپ نے فرمایا افسوس ہے تجھ پر کون انصاف کرے گا اگر میں انصاف نہ کروں ؟ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) انما الصدقت للفقرآء “ (الآیۃ) 2:۔ ابو داود اور والبغوی نے اپنی معجم میں والطبرانی والدارقطنی اور آپ نے اس کو ضعیف کہا زیادبن حارث صدائی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھے صدقہ میں سے عطا فرمائیے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی نبی اس کے علاوہ کسی دوسرے کے فیصلہ کے ساتھ راضی نہیں ہوئے صدقات کے بارے میں یہاں تک کہ اس بارے میں خود ہی حکم فرمایا اور اس کے آٹھ اجزاء کو مصارف کے طور پر بیان فرمایا اگر تو ان میں سے ہے تو میں تجھ کو تیرا حق ضرور دوں گا۔ 3:۔ ابن سعد نے زیاد بن حرث صدائی ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ ہم رسول اللہ ؓ کے ساتھ بیٹھے تھے اچانک ایک قوم اپنے عامل کی شکایت کرتے ہوئے آئی پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس نے ہم سے اتنی چیز لی ہے حالانکہ ہمارے اور اس کے درمیان زمانہ جاہلیت میں مراسم تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کے لئے حکومت میں خیر نہیں ہے۔ پھر وہ آدمی کھڑا ہو اور کہا یارسول اللہ ﷺ مجھے صدقہ میں سے عطا فرمائے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کی تقسیم کو کسی مقرب فرشتے کے سپرد نہیں کیا اور نہ کسی نبی مرسل کے فرمایا حتی کہ اس کے آٹھ مصارف بیان فرمائے اگر تو اس میں سے ایک جز ہے تو میں تجھ کو دوں گا۔ اگر تو (اس صدقہ کے لینے سے) غنی ہے (تو تجھے لینا جائز نہیں ہے) کیونکہ یہ سر میں درد اور پیٹ میں بیماری (کی طرح) ہے۔ 4:۔ سعید بن منصور الطبرنی وابن مردویہ نے موسیٰ بن یزید کندی (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ ایک آدمی کو پڑھاتے تھے اس نے پڑھا (آیت) انما الصدقت للفقرآء والمسکین “ اس نے فقراء کو بغیر لا کے پڑھا ابن مسعود نے فرمایا نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مجھے اس طرح نہیں پڑھائی اس آدمی نے کہا اور کس طرح آپ نے تم کو پڑھائی ہے تو آپ نے فرمایا مجھے آپ نے اس طرح پڑھایا (آیت) انما الصدقت للفقرآء والمسکین “ یعنی آپ نے اس کو قد کے ساتھ پڑھا۔ 5:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت نے قرآن میں ہر صدقہ کو منسوخ کردیا جسے (آیت) وات ذا لقربی حقہ والمسکین وابن السبیل “ (آیت 26) اور فرمایا (آیت) ان تبدوالصدقت ‘ (البقرہ آیت 271) اور فرمایا (آیت) ” وفی اموالہم حق للسآئل والمحروم (19) (الذریات آیت 19) (ان سب آیات میں جو حکم تھا وہ منسوخ ہوگیا) 6:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) انما الصدقت للفقرآء والمسکین “ کہ یہ وہ چیز (یعنی حکم) ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ یہ انکے لئے ہے پس تم ان میں سے جس صفت کو دے دو گے تو تجھ سے کافی ہوجائے گا۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابو الشیخ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) انما الصدقت للفقرآء “ کے بارے میں فرمایا اگر تو چاہے تو ان میں سے جس صنف کو دے دے ان صنفوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا دو کو یہ تین کو۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ کوئی حرج نہیں ان میں سے صرف ایک صنف کو دینے میں صنفوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ وابوالشیخ نے حسن عطاء ابراہیم سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہرحمہم اللہ سے روایت کیا کہ اللہ سب نے اسی طرح فرمایا۔ 10:۔ ابن منذر والنحاس نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ فقراء سے مراد ہیں مسلمانوں کے فقراء اور مساکین سے مراد ہیں طوافون پھرنے والے (جو صدقہ خیرات مانگنے کے لئے پھرتے رہتے ہیں) 11:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابن ابی حاتم والنحاس وابوالشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ فقیر وہ ہے جو اپاہج ہو اور مسکین وہ محتاج ہے کہ جو اپاہج نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ کا انصاف : 12:۔ سعید بن منصور وابن ابی حاتم نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو ایک دروازہ پر پڑا ہوا تھا اس نے کہا کہ انہوں نے مجھ سے سخت محنت لی ہے اور مجھ سے جزیہ وصول کیا یہاں تک کہ میری بصارت ختم ہوگئی اب کوئی بھی نہیں جو میری طرف کوئی چیز لے کر آئے عمر نے فرمایا تب تو ہم نے کوئی انصاف نہ کیا پھر فرمایا یہ ان لوگوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) انما الصدقت للفقرآء والمسکین “ پھر اس کے لئے فرمایا کہ اس کو رزق دیا جائے اور اس کے نام جاری کیا جائے۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) انما الصدقت للفقرآء والمسکین “ سے اہل کتاب میں سے اپاہج لوگ مراد ہیں۔ 14:۔ ابن ابی شبیہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ زکوٰۃ میں مشرکوں کو نہ دیا جائے اور نہ کفارات میں سے کوئی چیز دی جائے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ فقیر نہیں ہے جو ایک درہم کو دوسرے درہم کے ساتھ جمع کرے اور نہ وہ فقیر ہے جو کھجور کو کھجور کے ساتھ جمع کرے۔ فقیر وہ ہے جو اپنے کپڑے کو اور اپنے دل کو صاف ستھرا اور خالی کردے۔ اور وہ ذات پر قادر نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” یحسبہم الجاہل اغنیآء من التعفف “ (البقرہ آیت 273) 16:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے جابر بن زید (رح) سے روایت کیا کہ فقراء وہ ہیں جو سوال سے بچنے والے ہیں اور مساکین سوال کرنے والے ہیں۔ 17:۔ ابن ابی شیبہ نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا فقراء وہ ہیں جو اپنے گھروں میں ہوتے ہیں اور وہ سوال نہیں کرتے۔ اور مساکین وہ ہیں جو باہر نکل کر سوال کرتے پھرتے ہیں۔ 18۔ ابن ابی حامت نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ فقیر وہ آدمی ہوتا ہے جو اپنی قوم اپنے کنبے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے درمیان رہتا ہے اور اس کے پاس کوئی مال نہیں ہوتا اور مسکین وہ ہے جس کا کوئی کنبہ قرابت اور رشتہ داری نہ ہو اور اس کے پاس کوئی مال بھی نہ ہو۔ 19:۔ ابن ابی شبیہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ان سے آیت کے بارے میں فرمایا فقراء وہ ہیں جنہوں نے ہجرت کی بعد مساکین وہ ہیں جنہوں نے ہجرت نہیں کی 20:۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ہر اس شخص کو زکوٰۃ میں سے دیا جائے جس کا گھر ہو خادم ہو اور گھوڑا ہو۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ وہ اسے زکوٰۃ دینے سے منع نہیں کرتے تھے جس کا گھر اور خادم ہوتا۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا (آیت) ” والعملین علیھا “ یعنی صدقات وصول کرنے کے لئے دوڑ دھوپ اور کوشش کرنے والے۔ 23:۔ عبدا الرزاق وابن منذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ہر عامل کو اس کے عمل اور محنت کے مطابق مال زکوٰۃ میں سے دیا جائے گا۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ نے رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حق کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والے غازی کی طرح ہے۔ یہاں تک کہ میں اپنے گھر کی طرف لوٹ آئے۔ س 25:۔ ابن جریر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” والمولفۃ قلوبہم “ کے بارے میں فرمایا کہ ان سے مراد ایسے لوگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر اسلام قبول کرتے تو آپ ان کو صدقات میں سے کچھ عطا فرما دیتے۔ جب آپ ان کو صدقات میں سے عطا فرمادیتے تو وہ اس کلمہ خیر اپنی زبان سے رد کرتے اور کہتے یہ اچھا دین ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو وہ اس کو عیب لگاتے اور اس کو چھوڑ دیتے۔ 26:۔ بخاری وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ نے نبی کریم ﷺ کے پاس یمن سے کچھ چیزیں بھیجیں جن پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا اور ان میں وہاں کی مٹی بھی تھی، آپ نے اس کو مولفہ میں سے چار آدمیوں کے درمیان تقسیم فرمایا الاقرع بن حالیس الحنظلی، علقمہ بن علاثہ العامری، عیینہ بن بدر الفزاری اور زید الخیل الطائی تو قریش اور انصار نے کہا نجد والوں کے سرداروں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا ہم کو چھوڑ دیا جائے گا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ان کی تالیف قبول کی ہے۔ مولفۃ القلوب کون لوگ ہیں ـ؟ 27:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے یحییٰ بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) والمولفۃ قلوبہم “ (یہ لوگ تھے) بنوہاشم میں سے ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب، بنوامیہ میں سے ابو سفیان بن حرب، بنو مخزوم میں سے الحارث بن ہاشم عبد الرحمن بن یربوع، بنواسد میں سے حکیم بن حزام، بنو عامر میں سے سہیل بن عمر و مویطب بن عبدالعزی بنوجمع میں سے صفوان بن امیہ بنو سہم میں سے عدی بن قیس ثقیف میں سے العلا بن حارثہ یا حارثہ بنوفزارہ میں سے عیینہ بن حسین بنو تمیم میں میں سے اقرع بن حابس بنونصر میں سے مالک بن عوف، بنوسلیم میں سے عباس بن مرداس، نبی کریم ﷺ نے ان میں سے ہر ایک آدمی کو سو سو اونٹ مگر عبدالرحمن بن یربوع اور جو یطب بن عبدالعزی کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو پچاس اونٹیناں دیں۔ 28:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) والمولفۃ قلوبہم “ وہ لوگ ہیں جو اسلام میں داخل ہوں گے قیامت کے دن تک۔ 29:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا (آیت) والمولفۃ قلوبہم “ وجوہ عرب میں سے وہ قوم ہے کہ لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور جب تک وہ رہیں یہ ان پر خرچ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں یہاں پھر واپس لوٹ جائیں۔ 30:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے ابن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آج کوئی مولفہ قلوب نہیں ہے۔ 31:۔ بخاری نے اپنی میں وابن منذروابن ابی حاتم وابوالشیخ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ آج کوئی مولفہ قبول نہیں ہے یہ وہ لوگ تھے کہ نبی کریم ﷺ نے جن کی تالیف کیا کرتے تھے۔ جب ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسلام میں اس سلسلہ کو ختم کردیا۔ مولفۃ القلوب کا زمانہ ختم ہوگیا : 32:۔ ابن ابی حاتم نے عبیدہ سلمانی (رح) سے روایت کیا کہ عیینہ بن حصن اوراقرع بن حابس ابوبکر کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ ہمارے نزدیک شور والی زمین سے کہ جس میں کوئی گھاس نہیں اگتی اور نہ اس کا کوئی اور نفع ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم کو زمین کا کوئی ٹکڑا عطا فرما دیں کہ ہم اس میں کھیتی لگائیں شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ ہم کو نفع عطا فرمائے۔ تو ابوبکر نے وہ زمین ان کے حوالے کردی اور اس بارے میں ان دونوں کو ایک تحریر بھی لکھ دی اور اس کو گواہ بھی بنا لیا یہ دونوں عمر کے پاس گئے تاکہ ان کو بھی اس پر گواہ بنالیں اس تحریر پر جو کچھ اس میں لکھا ہے۔ جب عمر ؓ نے اس کو پڑھا جو خط میں لکھا ہوا تھا تو ان کے ہاتھوں سے لے لیا اس میں تھوک دیا اور اس کو پھینک دیا (ایسا کرنے پر) دونوں اس پر ناراض ہوئے اور آپ کو سخت الفاظ کہے عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ان دونوں کی تالیف فرمایا کرتے تھے۔ اسلام ان دنوں کمزور تھا (اب) اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے تو دونوں جاؤ اور محنت کرو اللہ تعالیٰ تمہاری رعایت نہیں فرمائیں گے اگر تم نے اپنی رعایت نہ کی۔ 33:۔ ابن سعد نے ابو وائل (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ مولفہ قلوب کے حصہ کا کیا کیا جائے۔ فرمایا دوسروں کے حصوں میں اضافہ کردو۔ 34:۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی الرقاب “ سے مکاتب مراد ہیں۔ 35:۔ ابن منذر نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ زکوٰۃ میں سے پورا غلام آزاد نہیں کیا جائے گا اور غلام دیا جائے گا۔ اور مکاتب کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 36:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم نے عمر بن عبدالعزیز (رح) سے روایت کیا کہ رکاب کا حصہ دو برابر حصوں میں آدھا آدھا کیا جائے گا ایک آدھا ہر اس مکاتب کے لئے ہے جو ان لوگوں میں سے ہو جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں۔ اور باقی آدھے سے ان غلاموں کو دیا جائے گا جو نماز پڑھتے ہوں روزہ رکھتے ہوں اور اسلام پر ثابت قدم ہوں مرد ہو یا عورت ان کو اللہ کے لئے آزاد کیا جائے گا۔ 37:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں دیکھتے کہ کوئی آدمی کو حج کے لئے اپنی زکوٰۃ میں سے دے یا کسی غلام کو آزاد کرے۔ 38:۔ ابوعبید وابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اپنے زکوٰۃ کے مال سے غلاموں کو آزاد کر۔ 39:۔ ابوعبید وابن منذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس بات میں سے کوئی حرج نہیں دیکھتے کہ ایک آدمی کے زکوٰۃ کے مال سے ایک غلام کو خرید کر آزاد کردیا جائے۔ 40:۔ ابو عبیدوسعید بن منصور ابن منذر نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ مال زکوٰۃ سے غلام کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اور اس سے آزاد نہیں کیا جائے گا۔ 41:۔ ابو عبید وابن ابی شیبہ وابن منذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اپنے مال زکوٰۃ سے کسی کو آزاد نہ کر کیونکہ اس میں ولاء جاری ہوتی ہے۔ ابو عبید ؓ نے فرمایا کہ ابن عباس ؓ کا قول اونچا ہے۔ جو ہم اس باب میں لے آئے اور وہ افضل ہے اتباع کے لحاظ سے اور زیادہ معروف ہے۔ تاویل کے لحاظ سے اور اس پر بہت سے اہل علم نے آپ کے ساتھ موافقت کی ہے۔ 42:۔ ابن ابی شیبہ نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الغرمین “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد قرض والے اور مسافر مراد ہیں اگرچہ (وہ مالدار ہو) 43:۔ عبدالرزاق وابن شیبہ وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الغرمین “ سے مراد ہے کہ جس کا گھر جل گیا ہو یا اس کا مال سیلاب میں بہہ گیا ہو اور اس کے اہل و عیال پر قرض کا بوجھ ہو۔ 44:۔ عبدالرزاق وابن منذور وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے ابو جعفر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الغرمین “ سے مراد ہے قرضہ طلب کرنے والا بغیر کسی فساد کے اور ابن السبیل سے مراد ہے ایک زمین سے دوسری زمین (یعنی دوسرے علاقہ) میں جانے والا مسافر۔ 45:۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الغرمین “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہلاکت اور بڑی امت میں قبیلہ ہونے کے بعد سوال کرتے ہیں۔ وفی سبیل اللہ یعنی مجاہدین وابن السبیل سے مراد راستہ میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جانے والا مسافر اس قدر اس کو دیا جائے کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔ 46:۔ ابن ابی حاتم ابوالشیخ نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ وفی سبیل اللہ سے مراد ہے اللہ کے راستوں میں لڑنے والا وابن السبیل سے مراد ہے مسافر۔ 47:۔ ابن ابی حاتم ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابن السبیل سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑنے والا مراد ہے اور ابن السبیل سے مراد ہے مسافر۔ 48:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابن السبیل سے وہ فقیر مہمان مراد ہے۔ جو مسلمانوں کے پاس آکر اترتا ہے۔ 49:۔ ابن ابی شیبہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ان سے اس مسافر آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو سفر میں اس حال میں نکلا کہ وہ مالدار تھا۔ سفر کے دوران اس کے پاس ساز و سامان ضائع ہوگیا۔ اور وہ محتاج ہوگیا تو فرمایا سفر کے دوران اس کو مال زکوٰۃ میں دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ مسافر ہے۔ 50:۔ عبد بن حمید وابن منذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفی سبیل اللہ “ سے مراد ہے زکوٰۃ میں سے اللہ کے راستے میں کسی آدمی کو سواری دی جائے (آیت) ” وابن السبیل “ سے مراد مہمان اور مسافر ہے جو راستہ سے کٹ جائے اور اس کے پاس کوئی چیز نہ ہو۔ (آیت) ” فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم “ یعنی کہ یہ حصے آٹھ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو فرض فرمایا اور ان کے بارے میں بتایا۔ 51:۔ ابن ابی شیبہ وابو داود ابن ماجہ وابن منذر وابن مردویہ نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی غنی کے لئے صدقہ (یعنی زکوٰۃ) حلال نہیں ہے مگر پانچ آدمیوں کے لئے عامل کے لئے جو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے محنت کرتا ہے یا وہ آدم جس نے اپنے مال کے عوض صدقہ کی کوئی چیز بدلی یا مقروض کے لئے یا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے لئے یا مسکین کا کوئی چیز صدقہ اور زکوٰۃ دی گئی اور پھر اس نے اس میں کوئی چیز مالدار کو بطور ہدیہ کے دے دی۔ 52:۔ ابن ابی شیبہ وابو داود والترمذی (اور آپ نے اس کو حسن کہا) وابن ماجہ والنحاس نے اپنی ناسخ میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے صدقہ یا زکوٰۃ کا سوال کیا حالانکہ اس کے پاس اتنا مال ہے جو اس کو غنی کرسکتا ہے تو اس کا سوال قیامت کے دن خراش کی صورت میں ظاہر ہوگا صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کتنا مال اس کو غنی کرسکتا ہے فرمایا پچاس درہم یا اس کی قیمت سونے میں سے۔ زکوۃ مالدار کے حلال نہیں : 53:۔ ابو الشیخ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے صدقہ کے مال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ برا مال ہے یہ لچے لنگڑے اور اندھے اور ہر راستہ بھٹک جانے والے کا مال ہے پوچھا گیا کیا صدقہ وصول کرنے والوں کا اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کا اس مال پر حق ہے آپ نے فرمایا عاملین کے لئے ان کے عمل کے بقدر ہے اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ایک ایسی قوم ہے کہ انکے لئے حلال ہے مگر صدقہ (یعنی زکوٰۃ) کسی مالدار اور ذی مرتبہ آدمی کے لئے حلال نہیں۔ 54:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کو آٹھ حصوں میں فرض فرمایا سونے میں چاندی میں اونٹ میں گائے میں بکری میں کھیتی میں انگور میں اور کھجور میں پھر زکوٰۃ کے آٹھ ہی مصرف بیان کئے گئے۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے (آیت) ” انما الصدقت للفقرآء “ (الآیہ) 55:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے تخمینوں میں مسلمانوں پر تخفیف کرو کیونکہ ان میں عرایا بھی ہیں اور وصایا بھی ہے پس عرایا تو کھجور کے تین یا چار یا اس سے کم اور زیادہ درخت ہیں ایک آدمی اپنے بھائی کو اس کا بھی پھل دیتا ہے تاکہ وہ اس کے گھر والے اس کا پھل کھائیں لیکن فرمایا وہی آٹھ حصے ہیں جیسے فرمایا (آیت) ” انما الصدقت للفقرآء والمسکین “ سے لے کر واللہ علیم حکیم “ تک۔ 56ـ:۔ احمد نے بنو ھلال کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا مالدار کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے اور نہ کسی ذی مرتبہ کے لئے۔ 57:۔ ابن ابی شبیہ وابو داود والترمذی نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مالدار کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے اور نہ کسی ذی مرتبہ کے لئے۔ 58ـ:۔ ابن ابی شبیہ وابو داود والنسائی نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت کیا کہ مجھے دو آدمیوں نے خبر دی کہ وہ دونوں حجۃ الوداع میں نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ صدقہ (مال) تقسیم فرما رہے تھے۔ تو ان دونوں نے آپ سے سوال کیا اس میں سے آپ نے ہماری طرف نظر اٹھائی پھر نیچے کرلی اور ہمارے جسموں کو دیکھا اور فرمایا اگر تم چاہوں تو میں تم کو دے دوں لیکن اس میں مالدار کے لئے کوئی حصہ نہیں اور نہ طاقت ور کمانے والے کے لئے۔
Top