Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 88
لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ١٘ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
لٰكِنِ : لیکن الرَّسُوْلُ : رسول وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْخَيْرٰتُ : بھلائیاں وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
لیکن پیغمبر ﷺ اور جو لوگ انکے ساتھ ایمان لائے سب اپنے مال اور جان سے لڑے انہی لوگوں کے لئے بھلائیاں ہیں اور یہی مراد پانے والے ہیں۔
(9:88) لکن الرسول۔ لکن کی دو صورتیں ہیں۔ (1) لکن (مشدد) سے مخفف بنایا ہوا ہے اس صورت میں یہ حرف ابتداء ہے اور غیر عامل ہوتا ہے اسی لئے اسم پر بھی داخل ہوتا ہے جیسے آیۃ ہذا میں لکن الرسول والذین امنوا معہ اور فعل پر بھی جیسے ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما (3:67) اس صورت میں یہ استدراک کا فائدہ دیتا ہے۔ (2) حرف عاطفہ کا کام بھی دیتا ہے جبکہ اس کے بعد کوئی مفرد آئے مثلاً لکن اللہ یشھد بما انزل الیک (4:166) لیکن یہ بھی استدراک کے لئے آیا ہے۔ (استدراک کا مطلب یہ ہے کہ ماقبل کے حکم کے خلاف مابعد کی طرف کسی حکم کی نسبت کی جائے اسی لئے ضروری ہے کہ لکن (یا اسی طور لکن) سے پہلے کوئی ایسا حکم ہو جو پیچھے آنے والے حکم کی نقیض یا ضد ہو۔ جیسے ما کان ابراہیم یہودیا ۔۔ حنیفا مسلمان (مذکورہ بالا) ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھا نہ عیسائی وہ تو تمام علائق سے کٹا ہوا ایک پکا مسلم تھا۔ الخیرات۔ بھلائیاں ۔ خیر کی جمع ۔ منافع الدارین۔
Top