Urwatul-Wusqaa - Maryam : 48
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ١ۖ٘ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا
میں نے تم سب کو چھوڑا اور انہیں بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارا کرتے ہو میں اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں ، امید ہے کہ اپنے پروردگار کو پکار کر میں محروم ثابت نہیں ہوں گا
چلتے چلتے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اتنی بات مزید کہہ ہی دی : 48۔ گزشتہ آیت میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ الوداعی ملاقات میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے والد کو دعائے مغفرت مانگتے رہنے کا فرمایا تھا بلاشبہ باپ باپ ہی تھا لیکن کیا بیٹا بیٹا نہیں تھا ؟ جہالت اور علم کس طرح نکھر کر سامنے آگیا کہ جہالت ٹس سے مس نہ ہوئی لنکت علم نے آبدیدہ ہو کر دعائے مغفرت کرنے کا جملہ پھر بھی بول دیا لیکن ہمارے علمائے کرام ‘ اللہ ان پر رحم کرے آج بھی اسی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرک باپ کے لئے دعائے مغفرت کا وعدہ کرکے غلطی کی ، افسوس صد افسوس اس علم پر جس نے ان کو یہ بات کہنے پر آمادہ کردیا اور علم کو جہالت کی طرف واپس آنے کی دعوت دی ، ہاں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا جاری رکھی تا آنکہ والد کو پیغام اجل آگیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مطلع کردیا کہ جب تک تیرا والد زندہ تھا تجھے دعا کا حق تھا لیکن جب اس کی موت نے اس کی ہدایت کا دروازہ بند کردیا تو اب دعا مانگنا بھی بیکار ٹھہرا ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں دعا کا سلسلہ جاری ہی اس وقت ہوتا ہے جب مرنے والا مر جاتا ہے اور جب تک مر کر قبر میں داخل نہ ہو کوئی دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔ اب چلنے لگے تو چلتے چلتے بھی والد کو صاف صاف لفظوں میں سنا دیا کہ ابو جان ! اب آپ سے بھی کنارہ کش ہوتا ہوں اور ان سے بھی جن کی آپ پرستش کرتے ہیں اور اللہ کے درے درے جن کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا تم نے سمجھ رکھا ہے اور یہ بات دوبارہ اس لئے کہی کہ لوگوں کے ہاں اس وقت بھی اور آج بھی معروف ہے کہ ان کی مار لگ جاتی ہے اگر ان کو سجدہ وسلام نہ کیا جائے حالانکہ سجدہ وسلام کا مستحق صرف اور صرف اللہ ہی ہے اس لئے زور دے کر فرمایا کہ میں پہلے بھی اور اب بھی اپنے رب کے سوا نہ کسی اور کو پکارتا ہوں ‘ نہ پکاروں گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ اپنے پروردگار کے پکارنے میں کبھی محروم نہیں رہوں گا ، جس سے یہ عزم بھی ثابت ہوگیا کہ اگر میری کوئی دعا قبول نہ ہوئی تو اس کا صاف صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ میرے اللہ کو منظور نہیں اور پھر جو اللہ کو منظور نہیں وہ مجھے بھی منظور نہیں کہ میری چاہت وہ ہے جو اللہ کی ہے اور اللہ میری چاہت کے لئے مجبور نہیں ہے کیونکہ اس کے قانون پختہ ہیں یقینا وہ اپنے قانون کو میرے لئے نہیں توڑے گا اور میں اس طرح بضد بھی نہیں کہ وہ میرے لئے قانون کو توڑ دے ، سارے حال سے وہی واقف ہے بندہ تو اتنا ہی جانتا ہے جتنا اس کو وہ بتا دیتا ہے ۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ چلتے چلتے جو جملے ارشاد فرمائے ان پر مزید غور کرو ‘ مخاطب والد بزرگوار سے ہیں اور زبان سے جو لفظ ارشاف فرماتے ہیں وہ ہیں (اعتزلکم وما تدعون من دون اللہ) فرمایا ابو ! صرف آپ ہی سے بیزاری کا اعلان نہیں کرتا بلکہ آپ کے تمام حواریوں اور ہم نواؤں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں جن جن کو تم اللہ کے سوا حاجت روا سمجھتے ہو اور میں پکارتا ہوں تو صرف اسی کو پکارتا ہوں جو میرا اور آپ سب کا رب ہے اور اس کے سوا نہ کوئی رب ہے اور نہ آپ کا بھی ‘ میں اس کی بندگی کرتا ہوں اور اس کی بندگی کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ اپنے رب کی بندگی کرکے میں محروم نہیں رہوں گا کہ آنے والے کل کو مجھے اس کا صلہ نہ دیاجائے :
Top