Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 48
وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْ١ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ١ؕ وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب زَيَّنَ : خوشنما کردیا لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے کام وَقَالَ : اور کہا لَا غَالِبَ : کوئی غالب نہیں لَكُمُ : تمہارے لیے (تم پر) الْيَوْمَ : آج مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَاِنِّىْ : اور بیشک میں جَارٌ : رفیق لَّكُمْ : تمہارا فَلَمَّا : پھر جب تَرَآءَتِ : آمنے سامنے ہوئے الْفِئَتٰنِ : دونوں لشکر نَكَصَ : الٹا پھر گیا وہ عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیا وَقَالَ : اور بولا اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : جدا، لاتعلق مِّنْكُمْ : تم سے اِنِّىْٓ : میں بیشک اَرٰي : دیکھتا ہوں مَا : جو لَا تَرَوْنَ : تم نہیں دیکھتے اِنِّىْٓ : میں بیشک اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب شیطان نے انہیں ان کے اعمال خوش نما کردکھائے،74 ۔ اور کہا کہ لوگوں میں سے آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں، اور میں تمہارا حامی ہوں،75 ۔ پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں وہ الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا میں تم سے بری الذمہ ہوں میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور اللہ شدید سزا دیتے ہیں،76 ۔
74 ۔ (جو وہ اسلام و رسول اسلام ﷺ کی مخالفت میں کررہے تھے) ۔ (آیت) ” میں کالذین بہت غور کے قابل ہے مسلمان ظاہر ہے کہ بطرورئاء میں مبتلا نہ تھے لیکن انہیں تصریح کے ساتھ ممانعت اس امر میں مشرکین کے ساتھ مشابہ ہونے سے بھی کی جارہی ہے، آج کے مسلمان سوچیں کہ وہ اولیاء اللہ ہونے کے مدعی ہو کر کن کن چیزوں میں اور کیسی کیسی حرام ومکروہ چیزوں میں مشابہت اعداء اللہ سے حاصل کرتے جارہے ہیں۔ شیطان کی اصلی کارفرمائی یہی تو ہے کہ وہ ہر معصیت، ہر کفر کو انسان کی نظر میں خوشمنا ودلفریب بنا دیتا ہے اس سے زیادہ کوئی قوت اسے ہرگز حاصل نہیں۔ انسان کی تربیت اگر صحیح ہوئی ہے۔ اور اس نے اپنی عقل سلیم سے کام لینا سیکھ لیا ہے تو وہ ہر ترغیب شیطانی سے محفوظ رہے گا۔ 75 ۔ قال سے یہ مراد نہیں کہ شیطان نے یہ گفتگو زبان اور الفاظ کی مدد سے کی ہو۔ دل میں اس کی وسوسہ اندازی کا مفہوم پوری طرح قول سے ادا ہوجاتا ہے لفظ قول عربی زبان میں بڑی ہی وسعت رکھتا ہے اور ہر طرح کی دلالت حال پر شامل ہے۔ (آیت) ” لا غالب لکم الیوم من الناس “۔ یعنی اپنی قوت و حشمت کو دیکھ کر وسوسہ شیطانی سے یہ خیال سرداران قریش کے دل میں گزرا۔ (آیت) ” انی جارلکم “۔ جار یہاں حامی وپشت پناہ کے معنی میں ہے اور یہ مفہوم عربی زبان میں عام ہے۔ معنی الجار ھھنا الدافع عن صاحبہ انواع الضرر کما یدفع الجار عن جارہ والعرب تقول انی جارلکم من فلان اے حافظ لک من مضرتہ فلایصل الیک مکروہ منہ (کبیر) حسن بصری اور اصم تابعی اور دوسرے محققین سے بھی منقول ہے کہ شیطان مجسم ہو کر سامنے نہیں آیا تھا۔ بلکہ اس نے وسوسہ اندازی ہی کی تھی۔ وفی کیفیۃ ھذا التزیین وجھان الاول ان الشیطان زین بوسوستہ من غیران یتحول فی صورۃ الانسان وھو قول الحسن والاصم (کبیر) ووسوس الیھم (کشاف) 76 ۔ جتنا علم شیطان کو اللہ کی عظمت وقوت کا ہے اتنا تو انسان کو بھی نہیں اور یہ خوف اسی علم سے پیدا ہوا، اس لیے اس کا یہ کہنا محل اشکال نہیں اور نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ شیطان میں بھی خوف خدا کی بنا پر ایمان کی جھلک موجود ہے۔ (آیت) ” ترآءت “۔ یعنی اس طرح دونوں لشکر جمع ہوئے کہ ایک نے دوسرے کو دیکھا۔ (آیت) ” الفئتن “۔ سے مراد بدر میں مومنوں اور کافروں کی جماعتوں کا ہونا بالکل ظاہر ہے۔ (آیت) ” انی اری مالاترون “۔ سے مراد ہر خدائی قوت ہوسکتی ہے۔ سیاق میں فرشتوں کا وجود زیادہ لگتا ہوا ہے۔ وفیہ وجوہ الاول انہ رای الملائکۃ والثانی انہ رای اثر النصرۃ والظفرفی حق النبی (علیہ السلام) (کبیر) (آیت) ” اخاف اللہ “۔ خوف خدا سے لازمی طور پر خوف آخرت مراد نہیں ہوسکتا ہے کہ شیطان اسی سے ڈرا ہو کہ کہیں یہیں اور ابھی میری خبر نہ لے لی جائے مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے کئی مسئلہ نکلتے ہیں مثلا :۔ ( 1) شیطان جس طرح وسوسہ ڈالتا ہے، کبھی اسے ترک بھی کردیتا ہے، جیسا کہ یہاں (آیت) ” انی بری ٓ ء “۔ میں اس کی مثال موجود ہے اور یہ ترک وہ اس وقت کرتا ہے جب دیکھ لیتا ہے کہ انسان بغیر میرے وسوسہ کے بھی گناہ کرے گا۔ (2) کشف اہل باطل کے لئے بھی ممکن ہے۔ چناچہ یہاں شیطان کو ملائکہ مکشوف ہوگئے۔ (3) اللہ تعالیٰ سے محض طبعی خوف کا ہونا کافی نہیں، مطلوب خوف ایمانی ہے۔
Top