Ashraf-ul-Hawashi - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
اے پیغمبر ہم نے تجھ پر جو سچی کتاب اتاری تو اس لیے کہ لوگوں کا فیصلہ تو اس طرح کرے جس طرح اللہ نے تجھ کو دکھلا یا6 اور دغا بازوں کا طرف وار مت بن7
6 یعنی شریعت کے قواعد کے مطابق فیصلہ کرو جیسے اللہ نے تجھ کو دکھلا یا یعنی وحی بھیج کر یا کسی اور طریقے سے آپ ﷺ کو سمجھایا حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں یہ ادراک اللہ کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ ٰ خاص تھا کہ آپ ﷺ کی رائے اللہ تعالیٰ کے سمجھانے سے ٹھیک ہوتی تھی اس لیے آپ ﷺ کا فیصلہ واجب الا تباع ہے، آنحضرت ﷺ کے بعد یہ ممصب کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اور امام یا مجتہد کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی لہذا اس پر عمل کرنا بھی ضروری نہیں ہے (کذافی اللوحیدی) 7 ان آیات کی شان نزول کے تحت عطا نے لکھا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشر بن ابیر تھا۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرالی اور اسے ایک یہودی کے گھر میں پھینک دیا۔ یہود نبی ﷺ کے پاس پہنچا کہ بنی ابریق طعمہ اور اس کے بھائیوں) نے یہ زرہ چوری کر کے میرے گھر میں پھینک دی۔ جب بنی ظفر کے لوگوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے ایکا کرلیا اور پھر شور مچا تے نبی ﷺ کے پاس پہنچے کہ یہود دی جھوٹا ہے زرہ اسی نے چرائی ہے طعمہ اور اس کے بھائی اس الزام سے بری ہیں، قریب تھا کہ آنحضرت ﷺ اس یہو دی کے خلاف فیصلہ صادر فرمادیتے اور بنی ابیرق پر الزام رکھنے پر اسے سرزنش بھی کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن جریر) عغا بازوں سے مرد طعمہ اور اس کے بھائی ہیں، یعنی آپ ﷺ ان کی حمایت نہ کریں۔ اصل یہی مجرم ہیں۔ معلوم ہوا کہ متہم شخص کی حمایت چائز نہیں ہے اور کافروں ذمی کا مال بھی مسلما نن کے مال کی محفوظ ہے۔ (قرطبی)
Top