Ashraf-ul-Hawashi - At-Tawba : 96
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جاوے تو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم ہو7
7 قرآن کی عظمت بیان کرنے کے بعد اب اس سے استفا کے آداب کی طرف اشارہ فرمایا رہا ہے کہ اسکی قرات کے وقت استماع اور انصاف ہونا ضروری ہے یعنی خامو شی اور توجہ سے سنا جاتے، مروی ہے کہ مشرکین مکہ قرآن کی قرات کے وقت شور غل کرتے اور کا نوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( کبیر) ویسے یہ حکم عام ہے کہ جب قرآن کی قرات ہو تو وہ دھیان سے سنا جائے اور باتیں نہ کی جائیں ( از مو ضح) بعض نے اس آیت سے استد لا کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورة فاتحہ کی قرات بھی ممنوع ہے کیونکہ اذا قری القران کا حکم ہے جو مقتدی امام نما زی غیر نمازی سب کو شامل ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز میں قرات کے متعلق اس آیت کو لیا جائے تو یہ آیت اپنے ما قبل سے بےربط ہو کر رہ جاتی ہے ما قبل کی آیات میں مشرکین سے خطاب چلا آرہا ہے اس لیے نظم قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں بھی مشرکین ہی مخاطب ہوں اور پھر اس آیت کے مکی ہونے سے اس کی اور بھی تائید ہوجاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت کو عام بھی مال لیاجائے تب بھی اصول فقہ کی رو سے حدیث لا صلوٰۃ الا بغاتحتہ الکتاب کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی) سے اس ی تخصیص ہوسکتی ہے لہذا ی آیت مقتدی کے لیئے سورة فاتحہ کی قرات سے کسی طرح مانع نہیں ہوسکتی۔ ( از کبیر )
Top