Al-Qurtubi - Al-Baqara : 246
مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ
مَا لَكُمْ : کیا ہے تم کو لَا تَرْجُوْنَ : نہیں تم امید رکھتے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَقَارًا : کس وقار کی
تم کو کیا ہوا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا اعتقاد نہیں رکھتے
ایک قول یہ کیا گیا ہے، رجا یہاں خوف کے معنی میں ہے یعنی تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے کہ وہ تم میں سے کسی کو سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف کو ترک کرنے میں تمہارے پاس کیا عذر ہے۔ سعید بن جبیر، ابو العالیہ اور عطاء بن ابی رباح نے کہا، تمہیں کیا ہوگ یا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ثواب کی امید نہیں رکھتے اور اس کے عقاب سے نہیں ڈرتے (1) سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے عقاب سے نہیں ڈرتے اور اس سے ثواب کی امید رکھتے ہو۔ والبی اور عوفی نے ان سے روایت نقل کی ہے : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کو نہیں جانتے (2) حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کا خیال نہیں کرتے۔ مجاہد اور ضحاک نے کہا، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کی پرواہ نہیں کرتے۔ قطرب نے کہا : یہ مجازی لغت ہے۔ بنو ہذیل، بنو خزاعہ اور بنو مضر کہیت ہیں لم ارج کا معنی ہے : میں پرواہ نہیں کرتا، وقار کا معنی عظمت ہے، توقیر کا معنی تعظیم ہے۔ قتادہ نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی جانب سے پکڑ کی امید نہیں رکھتے۔ گویا معنی یوں ہے تمہیں کیا ہوگیا ہے تم اللہ تعالیٰ سے ایمان پر جزا کی امید نہیں رکھتے۔ ابن کیسان نے کہا، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کے بارے میں یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ تمہیں اس صورت میں بدلہ دے کہ تمہیں بھلائی عطا کر کے عزت دے۔ ابن زید نے کہا، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طاعت نہیں کرتے (3) حضرت حسن بصری نے کہا، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا حق نہیں پہچانتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا نہیں لاتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کیا وجہ ہے تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اظہار نہیں کیونکہ جو اس کی عظمت کو تسلیم کرتا ہے تو وہ اس کی وحدانیت کا اعلان بھی کرتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وقار کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت قدم ہونا (4) اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وقرن فی بیوتکن (الاحزاب : 33) اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ اس کا معنی ہے تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اثبات نہیں کرتے جبکہ وہ تمہارا الہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں (1) کہا قول ابن بحر نے کیا ہے، پھر اس پر دلیل قائم کی۔ فرمایا : و قدخلقکم اطواراً ۔ یعنی تمہاری ذات میں ایسی نشانی بنا دی جو اس کی وحدانیت پر دلیل ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : اطواراً یعنی نطفہ جما ہوا خون اور گوشت کا لوتھڑا (2) یعنی خلقت کے مکمل ہونے تک مرحلہ بہ مرحلہ جس طرح سوروہ مومنون میں ہے۔ لغت میں طور سے مراد مرہ (ایک دفعہ) ہے یعنی جس نے یہ عمل کیا اور اس پر قادر ہوا، وہ اس امر کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کی عظمت بیان کرو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اطواراً سے مراد ہے بچے، جوان پھر بوڑھے اور ضعیف پھر قوی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اطواراً سے مراد انواع ہے، صحیح مریض، بینا، نابینا، غنی اور فقیر، ایک قول یہ کیا گیا ہے : اطوار سے مراد اخلاق اور فعال میں ان کا مختلف ہونا ہے۔ (3)
Top