Asrar-ut-Tanzil - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو (شکر بجا لانے کی بجائے) کفر سے بدل دیا اور انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں پہنچا دیا
(رکوع نمبر 5) اسرارومعارف ذرا ان لوگوں کا حال ملاحظہ ہو کہ قانون قدرت اور تقاضائے ربوبیت کس طرح نتائج مرتب کرتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ جل جلالہ کی نعمتوں کو تو پایا مگر بجائے شکر ادا کرنے کے کفر کی راہ اختیار کرلی ، نعمائے الہی میں ظاہرا تو خود وجود انسانی اور اس کی بیشمار صلاحیتیں ہیں پھر اس کی ضرورتوں کی تکمیل کے اسباب وذرائع اور اس کے استعمال کے لیے بیشمار نعمتیں ، یہ سب کچھ از خود عظمت باری پہ بہت بڑی دلیل ہے ، جبکہ اللہ جل جلالہ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرما کر اور اپنی کتابیں نازل فرما کر انعامات کی حد کردی انسان ایک باشعور اور باصلاحیت مخلوق تھی اسے چاہئے تو یہ تھا کہ ان سب نعمتوں پر غور وفکر کرتا اور اس کا سربارگاہ الہی میں جھک جاتا مگر جاہلوں نے کفر کی راہ اپنائی اور قوم کو بھی جس نے ان کی بات قبول کی اسی راستے پر لگا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ساتھ قوم بھی لے ڈوبے اور سب کو بربادیوں کی نذر کردیا ، یعنی جہنم میں جا پھینکا جو بدترین اور مشکل ترین جگہ ہے اور جہاں انہیں رہنا ہوگا ۔ ان ظالموں نے اللہ جل جلالہ کے اوصاف کو اپنے ایجاد کردہ معبودوں اور بتوں میں مان کر انہیں اللہ جل جلالہ کا شریک ٹھہرا لیا اور یوں دوسروں کو گمراہ کرنے سبب بن گئے آپ ﷺ انہیں کہہ دیجئے کہ دنیا کا نظام اپنے مقررہ طریق پر رواں ہے لہذا تمہیں بھی مہلت اور فرصت کے ساتھ زندگی صحت ، رزق وغیرہ نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع میسر ہے لہذا اٹھا لو ، مگر یاد رکھو انجام کار اپنے کافرانہ اور مشرکانہ عقائد کے سبب تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا ۔ (رضائے باری کی دلیل) یعنی دولت دنیا یا اقتدار وغیرہ کا ملنا اللہ جل جلالہ کی رضا مندی کی سند نہیں بلکہ اللہ کریم کی رضا کی دلیل صحت عقیدہ کے ساتھ عمل صالح کی توفیق ہے ورنہ انجام بہت برا ہوگا ۔ میرے ان بندوں سے جنہیں دولت ایمان نصیب ہے فرما دیجئے کہ نماز کو قائم کریں ، صلوۃ کا ترجمہ اردو میں نماز لکھا ہے مگر اس سے مراد عبادات ہیں اور عبادات کا مقصد اللہ کریم سے وہ خاص کیفیت حاصل کرنے کی کوشش ہے جو اس کے قرب کی تمنا اتنی شدید کر دے کہ اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرنے کو جی نہ چاہے اور اگر کبھی سرزد ہوجائے تو توبہ کی تمنا جاگ اٹھے اور یوں انسان ہمیشہ قرب الہی میں آگے ہی آگے ترقی کرتا رہے اس امر میں انسان کی دولت ، اقتدار یا اس کے کمالات بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں اور وہ اپنے کمالات پر اترانے لگتا ہے اللہ کریم نے اس کا علاج تجویز فرما دیا کہ عبادات کے ساتھ یہ اہتمام بھی رہے کہ اللہ جل جلالہ نے جو نعمتیں عطا کی ہیں وہ اس کے حکم کے مطابق صرف ہوتی رہیں ، کبھی ظاہر جہاں اللہ جل جلالہ نے علی الاعلان صرف کرنے کا حکم دیا ہو جیسے میدان جہاد میں یا دوسرے نیک کاموں میں اور کبھی پوشیدہ جہاں اللہ جل جلالہ نے پوشیدہ طور پر کرنے کا ارشاد فرمایا ہو ، جیسے نفلی صدقات اور بعض اوقات صلہ رحمی میں مدد کرنا وغیرہ اس طرح ان نعمتوں یا کمالات پر تکبر پیدا نہ ہوگا بلکہ جذبہ شکر ترقی کرے گا یہ احساس زندہ ہوگا کہ یہ میری ذاتی کمالات نہیں ہیں بلکہ مجھ پر اللہ جل جلالہ کا احسان ہیں اور میرے پاس اس کی امانت ہیں تاکہ اس کے حکم کے مطابق ان میں تصرف کروں کہ آخر ایک روز آرہا ہے جہاں نہ سودا بازی ہو سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی یعنی موت کے وقت یا میدان حشر میں یہ احساس ہو کہ میں نے یہ دولت یا طاقت وغیرہ غلط جگہ پر خرچ کردی تو کوئی سودا بازی نہ ہو سکے گی کہ صورت حال بدل سکے اور اگر کسی کی دوستی میں ایسا کیا ہوگا تو وہ دوست یا اس کی دوستی بھی کام نہ آئے گی ، ان آیات سے شفاعت انبیاء کرام (علیہ السلام) یا صلحا کا انکار مراد نہیں وہ تو الگ ثابت ہے کہ وہ لوگ نیکی کی دعوت دیتے ہیں یہ اس دوستی کی بات ہے جو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہو ۔ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ یہ کمالات تمہارے ذاتی ہیں تو اپنے گرد نگاہ کرو ، یہ زمین اور آسمان اور ان میں طرح طرح کی خوبیاں اور کمالات کس نے بنائے صرف اللہ جل جلالہ نے اسی نے بادل سے پانی برسا کر اسے روئیدگی کا سبب بنا دیا اور طرح طرح کے پھل پیدا فرمائے جو تمہاری غذا بنے جب تمہارا وجود ہی اس غذا پر قائم ہے تمہارے اوصاف تو پھر آگے تمہارے وجود پہ انحصار رکھتے ہیں ، اس نے تمہیں عقل عطا فرمائی کہ تم مختلف طرح کے جہاز بنا کر سمندروں پہ بھی رواں دواں ہو اور دریاؤں کو تمہاری خدمت پر لگا دیا کہیں زمین سیراب کرتے ہو تو کہیں ان سے مشین چلا رہے ہو نہ صرف یہ بلکہ اس نے سورج چاند اور دیگر سیاروں کو تمہاری خدمت پر لگا دیا شب وروز کو تمہاری ضروریات کی تکمیل پر مقرر کردیا کہ پورے جہان کی ہر حرکت اور سکون اے انسانو محض تمہاری خدمت اور تربیت کے لیے وقف ہے یقینا تمہارا خالق بھی وہی ہے اور ان جہانوں کا اور اس نظام کا بھی تمہارے کمالات اسی نظام کے محتاج ہیں تو پھر سوچو بھلا وہ تمہاری ذاتی کیسے ہو سکتے ہیں ۔ وہ ایسا کریم ہے کہ تمہاری ہر ضرورت پوری فرما دی یعنی ” جو تم نے مانگا “ سے مراد ہے کہ جو بھی تمہارے وجود کا تقاضا تھا وہ موسم تھا یا رات دن وہ لباس تھا کہ غذا وہ وقت تھا یا دوا غرض ہر شے تمہارے گرد مہیا کردی اور اس قدر بیشمار نعمتیں عطا فرمائیں کہ اگر تم شمار کرنا چاہو تو بھی ممکن نہیں تم گن ہی نہیں سکتے ، پھر ایسے کریم کی ناشکری اور نافرمانی کتنی بڑی بات ہے بیشک انسان بڑا ہی بےانصاف بھی ہے اور ناشکر گذار بھی ۔
Top