Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کی طرف جنہوں نے تبدیل کیا اللہ کی نعمت کو کفر کے ساتھ ، اور اتار اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر ۔
(ربط آیات) سب سے پہلے قرآن کی حقانیت اور صداقت بیان ہوئی پھر قیامت کا ذکر آیا ، اس کے بعد رسالت کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا پھر اللہ نے ایمان اور کلمہ توحید کی مثال پاکیزہ درخت کے ساتھ بیان فرمائی اور کفر وشرک کے کلمے کو ناپاک اور بدذائقہ درخت کے ساتھ تشبیہ دی ، پھر اللہ نے اہل ایمان کے ثابت قدم رہنے کی بات کی کہ اللہ تعالیٰ اسی پاک کلمے کے ساتھ اہل ایمان کو اس دنیا میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور مرنے کے بعد قبر میں اور پھر حشر میں بھی ثابت قدمی عطا فرمائے گا ، اب آج کی آیات میں اللہ نے کفر اور شرک کرنے والوں کا شکوہ بیان کیا ہے اور ان کے شرک کی تردید کی ہے ، ساتھ ساتھ ایمان والوں کو ترغیب بھی دی ہے کہ وہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے رہیں ، ان میں دو اصولوں کا خاص طور پر ذکر ہے جن پر مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہے ۔ (کفران نعمت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ ۔ اے مخاطب ! کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا یعنی تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا ، جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری کے ساتھ تبدیل کردیا ، ان کے لیے لازم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ ادا کرتے مگر انہوں نے ناشکری اور ناقدر دانی کا شیوہ اختیار کیا ، پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ (آیت) ” واحلوا قومھم دارا البوار “۔ اپنی قوم اور برادری کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم میں اتار دیا ، وہ خود تو راہ راست سے ہٹ چکے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کی گمراہی کا ذریعہ بھی بنے اور انہیں بھی اپنے ساتھ جہنم میں لے گئے ، اس سوال کے جواب میں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت کیا ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سے قریش مکہ مراد ہیں ، جو قرآن پاک کے اولین مخاطبین ہیں ، یہی لوگ قرآن پاک کی مخالفت اور کفر وشرک کی حمایت میں پیش پیش تھے ، پھر ان کے بعد سارے عرب تھے جو کفر وشرک کے پروگرام کو ہی غالب کرنا چاہتے تھے ، حضرت علی ؓ نے بھی اس سے قریش مکہ ہی مراد لیے ہیں ۔ (انعامات الہی) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بیشمار نعمتیں نازل فرمائی ہیں اگلی آیت میں آرہا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کوئی انہیں شمار کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا ، چہ جائیکہ ہر ایک کی تفصیل معلوم ہو ، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی نعمت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر بطور خاص ذکر فرمایا ہے اور جس کی لوگوں نے قدر نہیں کی ، مفسرین کرام نے اس کی بہت سی توجہیات کی ہیں ، بعض فرماتے ہیں کہ اس نعمت سے اللہ کا عظیم المرتب رسول مراد ہے ، اس کا ذکر اگلی سورة میں آئے گا وہاں نعمت کے ساتھ رسول کی تصریح موجود ہے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے مگر قریش مکہ نے ان دونوں نعمتوں کی قدر نہ کی ، اللہ کی ایک اور بڑی نعمت یہ تھی کہ اس نے قریش مکہ کو خانہ کعبہ اور حرم کا متولی بنایا ، سورة قریش میں اس کی تصریح موجود ہے (آیت) ” لایلف قریش “۔ اللہ تعالیٰ نے قریش مکہ کو پورے عرب میں ان کی عزت ووقار کی وجہ سے مانوس کردیا تھا ، لوگ ان کی عزت واحترام کرتے تھے ، چناچہ موسم گرما یا سرما میں جب بھی قریش تجارتی سفر پر جاتے تھے تو لوگ ان سے مانوس تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ عزت بیت اللہ شریف کا متولی ہونے کی بنا پر ہی عطا کی تھی ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا (آیت) ” فلیعبدوا رب ھذا البیت “۔ اس گھر کے رب کی عبادت کرو جس کی وجہ سے اس نے تمہیں عزت بخشی ہے ، بہرحال یہ بھی اللہ کی عظیم نعمت تھی مگر قریش نے اس کی بھی قدر نہ کی ، انہوں نے کفر اور شرک کا راستہ اختیار کیا جو کہ حد درجے کی نمک حرامی اور ناشکری تھی ، امام جعفر صادق (رح) کے قول سے ملتا ہے کہ دنیا کی مادی نعمتیں تو ہر مومن اور کافر کو میسر ہیں مگر اہل ایمان کے حق میں اللہ کی دو عظیم نعمتیں ہیں ، ایک اللہ کا قرآن ہے اور دوسرا نبی کریم ﷺ کا وجود مبارک ہے ، قریش نے ان دونوں نعمتوں کی قدر نہ کی ۔ حضرت علی ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس نعمت سے مراد ایمان اور توحید لیا ہے مگر ان لوگوں نے اس سے انکار کیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود بھی جہنم میں گئے اور دوسروں کو بھی وہیں اتارا شیخ ابن عربی (رح) صاحب فتوحات مکیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس نعمت سے مراد وہ صلاحیت بھی ہوسکتی ہے جو اللہ نے ہر فرد بشر کو عطا کی ہے (آیت) ” فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیھا “۔ یہ اللہ کی فطرت سلیمہ ہے جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا فرمایا ” کل مولود یولد علی الفطرۃ “۔ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر ہی پیدا ہوتا ہے ، یہ بھی اللہ کا بڑا انعام ہے ، مگر دنیا میں آکر لوگ اس فطرت کو خراب کرلیتے ہیں اور اس نعمت کی ناقدری کے مرتکب ہوتے ہیں ، یہ ایسا انعام ہے جو ہر انسان کو بلا استثناء حاصل ہے ” ان الامانۃ نزلت فی جزرقلوب الرجال “۔ خدا تعالیٰ نے یہ صلاحیت ہر شخص کے دل میں رکھ دی ہے ، اگر اس کو صحیح طریقے سے استعمال کرے تو ایمان پر قائم رہ سکتا ہے اور کامیابی حاصل کرسکتا ہے ، اکثر لوگ اس صلاحیت کو خراب کرلیتے ہیں اور پھر کوئی یہودیت کی طرف چلا جاتا ہے ، کوئی نصرانیت کی طرف ، کوئی کافر بن جاتا ہے اور کوئی مشرک ، اس صلاحیت کو بگاڑنے کی وجہ سے انسان جہنم کا شکار بنتے ہیں ، بہرحال یہ شکوہ ہے کہ دیکھو ! اللہ نے انسانوں کو کیسی کیسی نعمتیں عطا کیں ، انسان کا اپنا وجود بہت بڑی نعمت ہے اور اس کو تمام مادی نعمتوں کے علاوہ روحانی ترقی کے تمام اسباب بھی مہیا کیے مگر انہوں نے کچھ قدر نہ کی ۔ (قوم کی جہنم رسیدگی) فرمایا اے مخاطب ! کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری کے ساتھ تبدیل کردیا (آیت) ” واحلوا قومھم دارالبوار “۔ اور انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں یعنی جہنم میں اتار دیا (آیت) ” جھنم یصلونھا “۔ یہ جہنم ہی تو ہے جس میں داخل ہوں گے کفر وشرک کے نتیجے میں خود بھی جہنم رسید ہوئے اور اپنی قوم کو بھی ساتھ ہی لے گئے ، چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قریش کے بڑے بڑے سرداروں ابوجہل اور ابو لہب نے قوم کو کس طرح ہلاکت کے گڑھے میں ڈالا ، بدر کے مقام پر ان کے ساتھ کیا ہوا ، بڑے بڑے آئمۃ الکفر اپنی قوم سمیت جہنم رسید ہوئے احد اور دوسرے مقامات پر جتنے کافر مرے ، سب جہنم میں گئے ، ان کے لیڈر تو اپنے وقار کے لیے مخالفت کرتے تھے مگر ان کے پیروکار جو بلاسوچے سمجھے ان کی اتباع کرتے رہے وہ بھی ان کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچے موجودہ دور میں غیر ملکی مشنریاں بھی یہی کام انجام دے رہی ہیں ، یہودی ہوں یا عیسائی ، ہندو ہوں یا آغاخانی سب مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں یہ لوگ نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ جہنم میں لے جانا چاہتے ہیں (آیت) ” وبئس القرار “۔ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے ، وہاں پہنچ کر کسی کو چین حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ وہاں ہر آن دکھ ہی دکھ ہوں گے ۔ (شرک ذریعہ گمراہی ہے) فرمایا (آیت) ” وجعلوا للہ ان دادا “۔ اور ٹھہرائے انہوں نے اللہ کے لیے شریک مذ مدمقابل کو کہتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کا کوئی مدمقابل نہیں ذات میں نہ صفات میں اور نہ عبادت میں ، مگر انہوں نے انسانوں اور جنوں کو خدا کو شریک بنایا کسی نے شجر وحجر کی پوجا شروع کردی اور کسی نے ستاروں اور سیاروں میں کرشمہ مان لیا ، یہ سب شرکیہ باتیں ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے (آیت) ” لیضلوا عن سبیلہ “ تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کردیں سورة بقرہ میں اللہ کا یہ ارشاد بھی گزر چکا ہے (آیت) ” فلا تجعلوا اللہ ان دادا وانتم تعلمون “۔ اللہ کے مدمقابل نہ بناؤ ، حالانکہ تم جانتے ہو ۔ اللہ نے ان کی اس قباحت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ” قل “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں ” تمتعوا “ مزا اڑا لو ، چند دن تک اس زندگی میں فائدہ اٹھالو (آیت) ” فان مصیرکم الی النار “۔ کیونکہ بالاخر تمہارا لوٹنا دوزخ ہی کی طرف ہے ، یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ڈاکٹر مریض سے کہے کہ تو بدپرہیزی کرے ، تیری موت آنے ہی والی ہے ، اللہ نے فرمایا کہ تم دنیا میں عیش و آرام کرلو ، کفر ، شرک ، اور ناشکری کا ارتکاب کرلو ، تم اپنے انجام کو پہنچنے والے ہو ، اسی سورة کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے (آیت) ” ولئن کفرتم ان عذابی لشدید “۔ اگر تم نے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کیا تو اس کا عذاب بھی بڑا سخت ہے ، یہ چند دن کی مہلت ہے اس سے فائدہ اٹھا لو ، پھر تمہیں عذاب الہی سے دو چار ہونا پڑے گا ، اللہ تعالیٰ کا قانون امہال و تدریج ہے کہ وہ مہلت دیتا رہتا ہے ، سورة اعراف میں اس کا فرمان ہے (آیت) ” واملی لھم ان کیدی متین “۔ میں ایسے لوگوں کو مہلت دیتا رہتا ہوں ، میری گرفت بڑی مضبوط ہے ، جب چاہتا ہوں ، ان کو پکڑ لیتا ہوں ، مہلت دینا خدا تعالیٰ کی مصلحت ہے وگرنہ وہ فورا گرفت کرنے پر بھی قادر ہے ۔ (اقامت صلوۃ) کفار ومشرکین کے لیے ترہیب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ترغیب کا ذکر بھی کیا ہے ارشاد ہوتا ہے ” قل “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں (آیت) ” لعبادی الذین امنوا “۔ میرے ان بندوں سے جو ایمان لائے ، میرے وہ بندے جنہوں نے اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کیا ، کتاب الہی ، قیامت اور رسالت کی گواہی دی ، فرمایا میرے ان بندوں سے کہہ دو ، کہ تمہارے ایمان کے کچھ تقاضے بھی ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہے ان تقاضوں کی تکمیل سے ہی تمہیں مکمل فلاح نصیب ہوگی ، ان میں سے دو چیزوں کا اللہ نے بطور خاص ذکر کیا ہے (آیت) ” یقیموالصلوۃ “۔ پہلی بات یہ ہے کہ نماز کو قائم رکھیں ، نماز ایک بہت بڑی چیز ہے (آیت) ” وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین “۔ (البقرہ) یہ منافق صفت لوگوں پر بڑی بوجھل ہوتی ہے ، البتہ خشوع کرنے والے لوگوں پر آسان ہوتی ہے ، وہ اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں ، یہ انسان کی طرف سے اپنے پروردگار کی وفاداری اور غلامی کا ثبوت ہے 1 (حجۃ اللہ البالغہ ص 73 ج 1) ام العبادات المقربۃ “۔ خدا کا قرب دلانے والی عبادتوں کی یہ جڑ اور بنیاد ہے ، یہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم رکھنے والی عبادت ہے ، اسی لیے اللہ نے اسے ہر بالغ مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہے ، اس سے کوئی بھی مستثنی نہیں ، حضور کا فرمان (آیت) ” صل قآئما “۔ نماز کھڑے ہو کر پڑھو (آیت) ” فان لم تستطع فقاعدا “۔ اگر کھڑے ہو کر پڑھنے کی استطاعت نہیں ، تو بیٹھ کر پڑھ لو ، اگر ایسا بھی نہیں کرسکتے تو لیٹ کر پڑھو مگر چھوڑنا نہیں کیونکہ یہ تعلق باللہ کی درستگی کا ذریعہ ہے ، حضرت عمر ؓ نے 2 (موطا امام مالک ص 5) اپنے گورنروں کو مراسلہ بھیجا تھا جس میں یہ بھی لکھا کہ جس نے نماز کی حفاظت کی اس نے سارے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو برباد کیا ، اس نے ساری چیزوں کو برباد کیا ، نماز وہی مقبول بارگاہ ہوگی جو سمجھ کر اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے ، وگرنہ اللہ کی وعید یہ بھی ہے (آیت) ” فویل للمصلین ، الذین ھم عن صلاتھم ساھون “۔ (الماعون) ہلاکت ، تباہی اور بربادی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے بیخبر ہیں ، جنہیں اس کی حقیقت کا ہی علم نہیں اور جو ریاکاری کی خاطر نمازیں پڑھتے ہیں لہذا نماز کو سمجھ کر پڑھنا چاہئے کہ یہ کیا چیز ہے اور کیوں ضروری ہے ۔ (انفاق فی سبیل اللہ) فرمایا میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ نماز ادا کریں (آیت) ” وینفقوا مما رزقنھم سرا وعلانیۃ “۔ اور جو ہم نے ان کو روزی دی ہے اس میں سے پوشیدہ طور پر خرچ کریں اور ظاہری طور پر بھی ، ساتھ یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ یہ روزی ہماری عطا کردہ ہے ، تم گھر سے نہیں لائے ہم نے وسائل مہیا کیے اور پھر تمہیں ان اشیاء کا مجازی طور پر مالک بنایا کہ تم اس میں تصرف کرسکتے ہو ، ہم نے سارے مال کا مطالبہ نہیں کیا ، بلکہ اس کا کچھ حصہ ہماری راہ میں خرچ کرو ، زکوۃ ہے تو چالیسواں حصہ دو ، عشر ہے تو دسواں یا بیسواں حصہ ادا کرو ، پھر صدقہ فطر ادا کرو ، قربانی دو ، خویش و اقارب کا حق ادا کرو ، غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات پوری کرو ، سورة محمد میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارا سارا مال طلب نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے حق حاصل تھا مگر تم بخل میں مبتلا ہوجاتے اور پھر تباہی و بربادی آتی ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد مال کا کچھ حصہ نکالنے کا حکم دیا ہے ، اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو فضیلت حاصل ہوگی ، فرض سے سبکدوشی ہوگی اور اگر روک رکھو گے تو تمہارے لیے شرکا باعث ہوگا ، فرض واجب اور سنت ادا نہیں کیا تو پکڑے جاؤ گے اور اگر مستحب سے محروم رہے تو فضیلت سے محرومی ہوگی ، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کل مال کا چوتھا حصہ خرچ کرنے کا حکم دیا تھا ، جب کہ ہماری امت کے لیے چالیسواں ، بیسواں اور دسواں حصہ مقرر فرمایا ، البتہ کانوں کی پیداوار میں سے پانچواں حصہ خرچ کرنا ضروری ہے ، اگر انسان بخل کا مظاہرہ کریگا تو اس کے لیے وبال جان ہوگا ، نماز تعلق باللہ کی درستگی کا ذریعہ ہے جب کہ انفاق فی سبیل اللہ مخلوق کے ساتھ تعلق کی درستگی کا پیش خیمہ ہے ، امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ زکوۃ کا فلسفہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے بخل کا مادہ نکل جاتا ہے اور بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات فروغ پاتے ہیں فرمایا میرے ایمان دار بندوں کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے ہمارے راستے میں خرچ کریں ۔ (برمحل اور بروقت خرچ) انفاق فی سبیل اللہ کے مختلف محلات اور مختلف اوقات ہیں ، بعض اوقات ظاہری خرچ کرنا بہتر ہوتا ہے ، جب کہ دوسروں کو ترغیب دلانا مقصود ہو ، اور جب رضا الہی اور فضیلت مقصود ہو تو پوشیدہ طور پر خرچ کرنا افضل ہے ، سورة بقرہ میں ارشاد ہے (آیت) ” ان تبدوا الصدقت فنعماھی “۔ اگر ظاہر طور پر خرچ کرو تو یہ اچھی بات ہے (آیت) ” وان تخفوھا وتؤتوھا الفقرآء فھو خیرلکم “۔ اور اگر پوشیدہ طور پر محتاجوں کو دوگے تو یہ مزید بہتر ہوگا۔ ریاکاری سے بچ جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کے ہاں مقبولیت بھی زیادہ ہوگی ۔ فرمایا ہمارے دیے ہوئے رزق سے خرچ کریں (آیت) ” من ۔۔۔۔۔۔ ان یاتی یوم لا بیع فیہ “۔ قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں کوئی سوداگری نہیں ہوگی ، اس دنیا میں انسان کاروبار کرتا ہے اور تجارت کرتا ہے تاکہ فائدہ اٹھا سکے ، مگر قیامت کا دن ایک ایسا دن ہوگا جس میں اس قسم کی کوئی سودے بازی نہیں ہو سکے گی ، اگر کوئی چاہے کہ وہاں جا کر اس دنیا کی فوت شدہ نمازیں خریدے ، روزوں کی تجارت کرلے یا کوئی دیگر نیکی خرید لے تو ایسا ممکن نہیں ہوگا ، جو کچھ کمانا اور خریدنا ہے ، وہ اسی دنیا میں ممکن ہے یہیں کی کمائی ہوئی نیکی وہاں کام آئے گی ، اسی لیے فرمایا کہ اس دن سے پہلے خرچ کرلو جس دن کوئی خرید وفروخت نہیں ہوگی ، ولا خلل “۔ اور نہ ہی اس دن کوئی دوستی کام آئے گی ، اس دنیا میں بعض کام دوستی کی بنا پر بھی حل ہوجاتے ہیں ، سفارش کام آجاتی ہے کہیں جتھہ کام نکالتا ہے ، دوست دوست کی مدد کرتا ہے مگر قیامت کے دن یہ بھی ناممکن ہوگا ، ہر شخص کو اپنے اعمال کی کود جوابدہی کرنا ہوگی سورة الزخرف میں ہے (آیت) ” الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین “۔ آج کے دوست وہاں دشمن بن جائیں گے البتہ وہ متقی لوگ جن کی دوستی تقوی اور ایمان پر قائم تھی ، وہ وہاں بھی قائم رہی گی اور ان کی کوشش اور سفارش بھی وہاں کام آئے گی ، وہ ایک دوسرے کی نجات کے لیے پوری کوشش کریں گے اس کے علاوہ دنیا کی تمام دوستیاں ختم ہوجائیں گی ، لہذا اللہ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ وہ دو باتوں میں ایمان کے تقاضے ضرور پورے کریں ایک نماز قائم کریں اور دوسرا ہمارے عطا کردہ مال میں سے ہمارے حکم کے مطابق خرچ کریں ، چناچہ جہاں پر اللہ نے جماعت المسلمین کا ذکر فرمایا ہے ، وہاں ارشاد ہے (آیت) ” فان تابوا واقامو الصلوۃ واتوا الزکوۃ فاخوانکم فی الدین “۔ (التوبۃ) اگر کافر ، مشرک ، منافق ، بےدین توبہ ، کرلیں ، نماز قائم کرنے لگیں اور زکوۃ کی ادائیگی شروع کردیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں گویا نماز اور زکوۃ جماعتی نشانی ہے جو یہ کام کرتا ہے ، وہ ہماری جماعت کا آدمی ہے اور جو نہیں کرتا وہ جماعت المسلمین کا ممبر نہیں ہے ، یہی جماعتی خصوصیت اور یہی مسلمان کی پہچان ہے ، ایک بدنی عبادت ہے اور دوسری مالی ، اللہ نے ان دونوں کا یہاں بطور خاص ذکر فرمایا ہے ۔
Top