Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا۔۔ :”الْبَوَارِ“ یہ ”بَارَ یَبُوْرُ“ (ن) کا مصدر ہے، معنی ہے :”فَرْطُ الْکَسَادِ“ یعنی انتہائی بےقدر و قیمت ہونا، پھر ہلاکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ (راغب) 3 انسان کو اپنے وجود کی نعمت سب سے پہلے مفت ملی، اس نے اس کا شکر اپنے خالق کی اطاعت کے بجائے کفر، یعنی ناشکری اور اس کے وجود یا اطاعت و عبادت سے انکار کے ساتھ کیا اور جو شخص جس قدر سرداری اور نعمت سے بہرہ ور تھا اس نے اتنا ہی اپنی قوم کو غلط راستے پر لگا کر جہنم میں پہنچایا۔ اس لحاظ سے آیت عام ہے مگر سیاق وسباق اور مفسرین کے مطابق یہاں مراد کفار قریش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ابراہیم ؑ کی نسل میں پیدا فرما کر اپنے مقدس گھر کا متولی بنادیا۔ امن و اطمینان اور دنیا کا ہر پھل اور نعمت مہیا فرمائی، انھوں نے اس کا بدلہ توحید اور اطاعتِ الٰہی کے بجائے عین کعبہ میں اور اس کے اردگرد تین سو ساٹھ بت رکھ کر اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں اتار کردیا، فرمایا : (ۭ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ) [ القصص : 57 ] ”اور کیا ہم نے انھیں ایک باامن حرم میں جگہ نہیں دی ؟ جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں۔“ اور دیکھیے سورة قریش۔ پھر رسول اللہ ﷺ کو ان میں مبعوث فرما کر دنیا اور آخرت میں سرداری کی نعمت حاصل کرنے کا موقع دیا، مگر انھوں نے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے کے بجائے کفر کو اختیار کیا اور آپ کو ہر ایذا دی، حتیٰ کہ آپ کو حرم میں قتل کردینے کا منصوبہ بنا لیا، جس کے نتیجے میں ان کے پیروکاروں کو دنیا میں جنگوں، خصوصاً بدر وغیرہ اور آخر میں فتح مکہ کی صورت میں رسوائی اور بربادی ملی، شدید قحط اور مکہ میں قافلوں کی آمد رک جانے کی صورت میں آمدنی ختم ہونے سے انھیں بھوک اور خوف نے گھیر لیا اور آخرت میں جہنم میں جانے کی ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔ چناچہ فرمایا : (وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ 112؁ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ) [ النحل : 112، 113 ] ”اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظالم تھے۔“ اَلَمْ تَرَ : اس کے اولین مخاطب اگرچہ نبی کریم ﷺ ہیں مگر ہر وہ شخص اس کا مخاطب ہے جو مخاطب ہونے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے ساتھ انسان خصوصاً کفار قریش کی نعمت کے مقابلے میں ناشکری اور کفر پر تعجب کا اظہار فرمایا ہے۔
Top